تحریر۔۔۔ باؤ اصغر علی
محترم و معزز قارئین اگر ہم موجودہ سیاسی حالات و واقعات کا بغور مشاہدہ کریں تو یہ حیققت کھل کر سامنے آتی ہے کہ ہم دوبارہ اسی کی دھائی میں لوٹ گئے ہیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے ہماری سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا ہے ایسے ایسے الفاظ مخالفوں کے لئے استعمال کئے جا رہے ہیں جو ہم سپرد قلم کرنے سے قاصر ہیں ہمارے ملک میں اس وقت الزام تراشی کا سیلا ب برپا ہے ہر سیاسی جماعت کا لیڈر دوسری سیاسی جماعت کے لیڈر بڑھ چڑھ کر الزام تراشی کر رہا ہے اور عوام مہنگائی اور نا انصافی کی چکی میں پس رہی ہے، ناانصافی ہر برائی کی جڑ ہے قانون کا ایک درست فیصلہ قوم کو بھی سرخرو کردیتا ہے اور منصفوں کو بھی عزت کی بلندیوں پر پہنچا دیتا ہے،انصاف میں تاخیر انصاف کا قتل ہے ملک میں بہتری کے لئے ایک کڑے احتساب کی ضرورت ہے جس میں کسی بھی شخص کے مرتبے اور حیثیت کا خیال کئے بغیر پوری دیانتداری سے اس کے عمل کا جائزہ لیا جائے توکرپشن کا جن بھی قابومیں آسکتا ہے اورمعصوم زینب ، ننھی اسما جیسی کئی اور وطن عزیز کی لخت جگردرندگی جیسے واقعات سے محفوظ ہو سکتی ہیں،زینب اور اسما جیسے وا قعات کے بعد اب تک روز کتنے اور واقعات سامنے آچکے ہیں بچوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا خطرہ ہر جگہ موجود ہے روز دو ،چار بچو ں کو ہراساں کرنے کے واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں انکھیں اخباروں کی سرخیوں میں اور دل روتا ہے معصوم سے نھنے منے پھولوں کی بے حرمتی اور اپنی بے بسی پر ، اور دوسری طرف مہنگائی کا جن غریب عوام کو دو وقت کی روٹی سے بھی محروم کئے جا رہا ہے یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہحکمرانوں کی ناقص پالیسیوں کا سب سے زیادہ نقصان غریب اور متوسط طبقات کو ہوتاہے، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے باوجود پاکستان میں پٹرول کی قیمت آئے دن بڑھائی جا رہی ہے، گزشتہ 16 ماہ کے دوران پٹرول کی قیمت 15 مرتبہ بڑھائی گئی، پٹرولیم قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے،عام آدمی غربت کی چکی میں بری طرح پس رہا ہے جبکہ اس کے لیے دو وقت کی روٹی کما نا مشکل ہو چکی ہے، وطن عزیز میں،مہنگائی،بے روزگاری ، کرپشن، لوٹ مار،بد امنی سے عوام کی بے بسی دیکھ کر افسوس ہوتا ہے مگر ہمارے حکمرانوں کے کانوں پہ جو ں تک نہیں رینگتی انہوں نے تو بس ایک دوسرے پر الزام تراشی کی ٹھانی ہوئی ہے اور جب وطن عزیز میں کوئی انہونا واقعہ رونماں ہوتا ہے تو تمام سیاسی جماعتوں کے لیڈر اور رہنما میدان میں آتے ہیں اور اپنی اپنی سیاست چمکا کر پھر اپنے اپنے جلسوں ،جلوسوں، دھرنوں اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں ،ا ور جس کو جتنا وقت ملتا ہے وہ حسب توفیق کرپشن کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنی دولتی تجوریاں بھرتا ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کار خانہ قدرت میں ہر چیز برائے فروخت نہیں ہے ،دست قدرت نے کچھ نایاب ہیرے بھی تراشے ہیں دولت کے پجاریوں کا خیال ہے کہ کثرت دولت سے زمانے میں نیک نامی ملتی ہے ،لیکن ہمارے قومی شاعرعلامہ اقبال فرماتے ہیں کہ ،خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر،کم دولت بھی بلندی اقبال کا بہانہ اور غربت وجہ شہرت بن جاتی ہے،اس جہان میں کتنے دولت مند انسان آئے خوب شہرت پائی اور پھر صفحہ ہستی سے مٹ گئے ،اور آنے والی نسل انسانی ان سے نا واقف رہی ان کی ساری شہرت کتابوں کے اوراق میں سمٹ کر رہ گئی اور کچھ ایسے ستارے بھی مطلع دنیا پر طلوع ہوئے جو کہ چھپ جانے کے بعد بھی جگمگا رہے ہیں اور شائد رہتی دنیا تک اس جہان میں روشنی بکھیرتے رہیں جس سے بھولے بھٹکے راہ گم کرتا مسافر اپنی منزل کا تعین کرتے رہے گے ، جب دیکھتی ہیں آ نکھیں حالات وطن تو ایک دعا لب پہ آتی ہیں کہ یا اللہ پاک ہمارے پیارے ملک پر نظر کرم کر اور دیانت ،صداقت ،امانت اور اخلاق کا پیکرقائد اعظم محمد علی جناح جیسا حکمران پیدا کر آمین ثم آمین۔