پیپلزپارٹی نے صوبے کی تمام 12نشستوں پر فتح کیلئے ایم کیو ایم کے ناراض ارکان سے امیدیں وابستہ کرلیں
کراچی (یو این پی)سینیٹ انتخابات کے لیے تمام مرحلے مکمل ہونے کے بعد سندھ میں مختلف جماعتوں نے اپنے امیدواروں کی کامیابی کے لیے رابطوں کا سلسلہ تیز کردیا ہے ۔پاکستان پیپلزپارٹی نے صوبے کی تمام 12نشستوں پر فتح کے لیے ایم کیو ایم کے ناراض ارکان سے امیدیں وابستہ کرلیں ۔ ایم کیو ایم پاکستان دھڑے بندی کے باعث کا مشکلات کا شکار ہے ۔مسلم لیگ (ن) کے امیدوار اسماعیل راہو کا مسلم لیگ (فنکشنل) کے امیدوار کے حق میں دستبرداری کا امکان ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف نے پی ایس پی کے امیدوار کی حمایت کا اعلان کرسکتی ہے ۔تفصیلات کے مطابق سندھ سے سینیٹ کی 12 نشستوں کے لئے 33 امیدوار میدان میں رہ گئے ہیں پیپلزپارٹی نے اپنے8 امیدوار قاسم سراج سومرو، جاوید نایاب لغاری، ندا کھوڑو، نوید اینتھونی، دوست محمد، تاج حیدر، ڈاکٹر یونس اور ہمیرا علوانی کو سینیٹ الیکشن سے دستبردار کرالیا ان امیدواروں نے الیکشن کمیشن کے قواعد کے مطابق آزاد حیثیت میں کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے ان امیدواروں کے کاغذات کیساتھ پیپلزپارٹی کے ٹکٹ نہیں تھے تاہم یہ پیپلزپارٹی کے حتمی امیدواروں کے کورنگ امیدوار تھے۔ انکی دستبرداری کے بعد پیپلز پارٹی کے 20 میں سے 12 امیدوار میدان میں رہ گئے ہیں جن میں رضا ربانی، مولا بخش چانڈیو، مصطفی نواز کھوکھر، محمد علی شاہ جاموٹ، امام دین شوقین، ایاز مہر، مرتضی وہاب، ڈاکٹر سکندر میندھرو،انور لعل دین، قرت العین مری اور کرشنا کماری شامل ہیں۔ اسی طرح مسلم لیگ(ن)کے رہنما آصف خان نے بھی سینیٹ الیکن کے لیے اپنے کاغذات نامزدگی واپس لے لیے، ان کے کاغذات آزاد امیدوار کی حیثیت سے منظور ہوئے تھے۔ آصف خان کے مطابق قیادت کی ہدایت پر انہوں نے سینیٹ الیکشن میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ ہے۔ ادھر ایم کیو ایم کے دو دھڑوں کے اختلافات کا اثر سینیٹ انتخابات کے امیدواروں کی عدم دستبرداری کی صورت میں سامنے آگیا، دستبرداری کے آخری گھنٹے میں ایم کیو ایم رابط کمیٹی کے کنوینر کی حیثیت سے خالد مقبول صدیقی کا الیکشن کمیشن کو لکھا گیا خط سامنے آگیا جس میں کامران ٹیسوری، کشور زہرہ، فرحان چشتی، احمد چنائے، حسن فیروز، علی رضا عابدی، منگلا شرما، نگہت شکیل اور امین الحق کے ٹکٹ واپس لے لیے گئے۔ خط کے مطابق ان کے جنرل نشست کے لیے فروغ نسیم، عامر چشتی، خواتین کی نشست کے لیے نسرین جلیل، ٹیکنو کریٹ کے لیے عبدالقادر خانزادہ اور اقلیتی نشست کے لیے سنجے پروانی ان کے امیدوار ہوں گے۔ بیرسٹر فروغ نسیم ٹیکنو کریٹ کی نشست پر پہلے ہی کاغذات نامزدگی واپس لے چکے ہیں۔ ڈاکٹر فاروق ستار پہلے ہی اعلان کرچکے تھے کہ سینیٹ الیکشن کا معاملہ ہادر آباد کی تحلیل شدہ رابطہ کمیٹی کے سپرد کردیا ہے لیکن بہادر آباد گروپ نے بھی سینیٹ ٹکٹ کی واپسی کا قدم اٹھایا مگر کسی امیدوار کو دستبردار نہیں کرایا اس طرح ایم کیو ایم کے دونوں گروپوں کے 14 امیدوار میدان میں ہیں۔ مفاہمت کی صورت میں بھی تمام امیدواروں کے نام بیلٹ پیپر پر موجود ہوں گے۔ صوبائی الیکشن کمیشن نے بھی خالد مقبول صدیقی کے خط کے حوالے سے واضح موقف دینے سے گریز کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے خط کے حوالے سے کچھ علم نہیں ہے۔ ان کے اس موقف سے معاملہ مزید الجھ گیا ہے یعنی ایم کیو ایم کی اندرونی لڑائی الیکشن کمیشن سے نکل کر سندھ اسمبلی پہنچے گی جہاں 3 مارچ کو سینیٹ کی 12 نشستوں کے لیے انتخاب ہوگا۔ الیکشن کمیشن نے دستبردار ہونے والے جن 10 امیدواروں کے ناموں کی حتمی فہرست جاری کی ہے ان میں جاوید احمد نایاب، دوست علی جیسر، محمد آصف خان، محمد قاسم، ڈاکٹر یونس حیدر سومرو، تاج حیدر، محمد فروغ نسیم، حمیرا علوانی، ندا کھوڑو اور انتھونی نوید شامل ہیں۔ ایم کیوایم کے گروہوں میں بٹے اراکین اسمبلی کس کو ووٹ دینگے صورتحال انکے لئے مزید پریشان کن ہوگئی ہے انہیں بہادرآباد اور پی آئی بی کا بیک وقت دباو کا سامنا کرنا پڑیگا پی ایس پی کی دوستیاں بھی رکاوٹ بن سکتیں ہیں ادھر ذرائع کے مطابق گورنر ہاؤس میں مسلم لیگ (ن) اور فنکشنل لیگ کے درمیان مذاکرات ہوئے جس میں گورنر سندھ محمد زبیر کے علاوہ پیر صدر الدین شاہ راشدی،فنکشنل لیگ کے اراکین صوبائی اسمبلی نصرت سحر عباسی، نند کمارگوکلانی ، شہریار مہر، وریام فقیر اور دیگر جبکہ نواز لیگ سندھ کے جنرل سیکرٹری شاہ محمد شاہ، حاجی شفیع جاموٹ، ہمایوں خان، سورٹھ تھیبو اور شیرازی برادران شریک ہوئے مگر سابق وزیراعلی سندھ ارباب غلام رحیم اس مذاکرات کا حصہ نہیں تھے۔ ذرائع نے بتایا کہ نون لیگ اپنے امیدوار بابو سرفراز جتوئی کو فنکشنل لیگ کی حمایت میں دستبرداری پر رضامند ہوگئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے تصدیق کی ہے کہ ہم فنکشنل لیگ کے امیدوار کی حمایت کریں گے۔سندھ میں سینیٹ کی بارہ نشستوں کے لئے ایم کیوایم کے چودہ، پیپلزپارٹی کے بارہ، نواز لیگ کے ایک، پی ایس پی کے تین،فنکشنل لیگ ایک اور پی ٹی آئی کا ایک امیدوار میدان میں ہیں ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کا پاک سرزمین پارٹی کے لیے نرم گوشہ سامنے آرہا ہے مگر حمایت سے متعلق تحریک انصاف کی کوئی واضح پالیسی کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ سندھ سے سینیٹ کی 12 نشستوں پر انتخاب ہوگا جن میں سے 7 جنرل نشستیں ہیں۔ اگر عددی طاقت کا اندازہ لگایا جائے تو سندھ اسمبلی کے 166 کے ایوان میں سے پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی کی تعداد 94 ہے لیکن ان میں سے ایک رکن اسمبلی اویس مظفر طویل عرصے سے بیرون ملک مقیم ہیں جبکہ حسنین مرزا کے اختلافات بھی ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ اسی طرح ایم کیو ایم کے سندھ اسمبلی میں اراکین کی تعداد 50 ہے لیکن ان میں سے 8 ارکان اسمبلی پاک سرزمین پارٹی میں شامل ہوچکے ہیں، چار اراکین طویل عرصے سے بیرون ملک مقیم اور 2 غیر فعال ہیں اور ایک کو پارٹی سے نکال دیا گیا ہے اس طرح ایم کیو ایم کے ووٹ دینے والے اراکین کی تعداد 34 ہوگی مگر ڈاکٹر فاروق ستار کے مطابق ایم کیو ایم کے اراکین کی اس وقت بھی تعداد 37 ہے۔ فنکشنل لیگ کے 9 ارکان میں سے کسی نے وفاداریاں تبدیل نہیں کیں لیکن تحریک انصاف کے 4 اراکین میں سے ایک رکن سید حفیظ الیدن پی ایس پی میں شامل ہوچکے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر 7 افراد سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے مگر ان میں سے دو اراکین پارٹی چھوڑ چکے ہیں لیکن نیشنل پیپلز پارٹی اور ایک آزاد رکن کی نون لیگ میں شمولیت سے ان کے اراکین کی تعداد میں کوئی تبدیل نہیں آئی۔ تعداد کے اعتبار سے ایم کیو ایم کو سب سے زیادہ نقصان ہوگا اگر اتحاد اور حمایت سے محروم رہے تو اس وقت سینیٹ میں 4 ارکان کی طاقت رکھنے والی ایم کیو ایم صرف ایک ہی سیٹ جیت سکے گی۔ پی ایس پی پارلیمانی سیاست میں نہ ہونے کے باوجود سینیٹ انتخابات میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے کیونکہ اس پارٹی میں 9 اراکین اسمبلی شامل ہیں اور وہ طویل عرسے بعد سینیٹ الیکشن کے لیے سندھ اسمبلی کے نئے ایوان میں جائیں گے۔ اسی صورتحال کی وجہ سے سندھ کو سینیٹ الیکشن کو جوڑ توڑ کا مرکز قرار دیا جارہا ہے، اپوزیشن کی تمام جماعتیں حمایت حاصل کرنے کی دوڑ میں مصروف ہیں مگر مشترکہ اتحاد کی کوئی امید نظر نہیں آتی جس کا تمام تر فائدہ سندھ میں حکمراں جماعت پیپلز پارٹی کو ہوگا۔