تحریر۔۔۔ ڈاکٹربی اے خرم
اٹھائیس جولائی دوہزار سترہ کو سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے بعدمیاں نواز شریف وزیراعظم نہیں رہے ناہلی کے بعد مسلم لیگ ن کے رہنماؤں اور اعلی قیادت دھیرے دھیرے عدلیہ سے محاذ آرائی کی جانب بڑھتی رہی پارٹی کا ایک ایسا حلقہ محاذ آرائی کی پالیسی سے واضح اور کھلا اختلاف رکھتے ہوئے برملا کہتا رہا یہ راستہ پارٹی اور اعلی قیادت کے لئے اچھا نہیں ہے اور آنے والے وقت میں اعلی قیادت بند گلی میں چلی جائے گی لیکن دوسراحلقہ پارٹی کے سنجیدہ حلقے سے یکسرمختلف رائے کا حامل رہا دوسرا حلقہ پارٹی،اعلی قیادت اور خود محاذ آرائی کی پالیسی پہ گامزن ہونے والے اپنی بقا کیلئے اسی میں متلاشی رہے کہ ملکی اداروں سے ہر حال ٹکراؤ کرنا ہے پچھلے چند دنوں سے وزیر اعظم سمیت جماعت کی اعلی قیادت عدلیہ سے تصادم کی طرف بڑی تیزی سے بڑھی اور ایسا لگا کہ حکومت اور عدلیہ آمنے سامنے نظر آئے اٹھائیس جولائی دوہزار سترہ کے بعد ایک مرتبہ پھر سپریم کورٹ کے اکیس فروری کے فیصلے سے سردی سے گرمی کی جانب بڑھتے موسم کی طرح پاکستانی سیاست میں بھی گرماگرمی پیدا ہوگئی حالیہ فیصلہ
اس زلزلے کی مانند ہے جوہرچیزکو ایک ہی لمحہ میں تہس نہس کر کے رکھ دیتا ہے ’’سیاسی زلزلہ‘‘ اتنی شدت کا تھا کہ مسلم لیگ ن کی تنظیم اور تنظیمی ڈھانچہ دیکھتے ہی دیکھتے زمین بوس ہوگیا ملکی سیاسی حالات میں ایک تلاطم پیدا ہو گیا ہے آئینی بحرانی کیفیت کے ساتھ ساتھ تکنیکی اور قانونی مسائل و نکات اٹھنے کے خدشات ہیں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے انتخابی اصلاحات 2017 کیس کا فیصلہ اکیس فروری کی شام چھ بجے کے قریب سناتے ہوئے نوازشریف کو پارٹی صدارت کے لیے بھی نااہل قرار دیتے ہوئے کہا ہے آرٹیکل 62 اور 63 پر نہ اترنے والا شخص پارٹی صدارت نہیں رکھ سکتاچیف جسٹس نے نوازشریف کو پارٹی صدارت کے لیے نااہل قرار دیتے ہوئے فیصلہ دیا کہ آرٹیکل 62 اور 63 پر نہ اترنے والا شخص پارٹی صدارت نہیں رکھ سکتا کیونکہ پارٹی صدارت کا براہ راست تعلق پارلیمنٹ سے ہے۔عدالتی فیصلے میں نوازشریف کے بطور پارٹی صدر اٹھائے گئے اقدامات کو بھی کالعدم قرار دیا گیا ہے نوازشریف کے سینیٹ الیکشن کے لئے امیدواروں کو جاری کردہ پارٹی ٹکٹ بھی منسوخ کئے جارہے ہیںآرٹیکل 17 سیاسی جماعت بنانے کا حق دیتا ہے،جس میں تمام قانونی شرائط موجود ہیں۔، فیصلے میں کہا گیا ہے آئین کے آرٹیکل 62 اور 63پر پورا اترنے والا ہی پارٹی صدر بن سکتا ہے،سپریم کورٹ نے نواز شریف کی مسلم لیگ(ن)کی صدارت ختم کردی، سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ پابندی کا اطلاق نواز شریف کی نااہلی کی مدت سے ہوگا
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد جہاں مسلم لیگی حلقوں میں صف ماتم بچھی وہاں بہت سے سوالات نے بھی جنم لیا ایک نئی آئینی بحث کا آغاز شروع ہوگیا میاں نواز شریف نے شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم نامزد کیا ،این اے 120،این اے154کے ٹکٹ ان کے دستخطوں سے جاری ہوئے تین مارچ کو ہونے والے سیینٹ انتخابات میں مسلم لیگی امیدوار کی نامزدگی و منظوری میاں صاحب نے دی ان سب اقدامات کی آئینی حیثیت کیا ہوگی۔۔؟ آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد مسلم لیگ ن سینیٹ الیکشن سے بھی باہر ہو گئی ہے البتہ ان کے نامزد امیدوار آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لے سکتے ہیں پارٹی قیادت کی نااہلی کے بعد وزیراعظم پہ بھی خطرے کی تلوار لٹکا دی گئی ہے سپریم کورٹ کے فیصلے سے نوازشریف وزارت عظمیٰ کے بعد پارٹی سربراہی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے نواز شریف کا نام اپنی ویب سائٹ سے نکال دیااور اب ن لیگ میں نئے سربراہ کیلئے بحث چھڑ گئی ہے نوازشریف کی نااہلی کے بعد ایک مرتبہ پھر سے پارٹی سربراہ کیلئے چہ مگوئیاں شرو ع ہو گئیں مسلم لیگ کے بڑوں نے سر جوڑ لئے ہیں پارٹی قیادت کا تاج کس کے سر سجے گا اس کا فیصلہ شریف برادران ہی کریں گے شہباز شریف نئے قائد ہوں یا مریم بی بی یا پھر سابق خاتون اول کو منتخب کیا جائے اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ پارٹی قیادت ’’شریفوں‘‘ ہی کے پاس ہی رہے گی چہرے بدل جائیں گے پالیسی نہیں بدلے گی اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں میاں نواز شریف ایک بڑی پارٹی کے رہنما ہیں اور رہیں گے پارٹی قیادت نہ ہونے کے باوجود بھی مسلم لیگ ن میں ان کا کردار ایک مسلمہ حقیقت ہے اور رہے گا ملک کے بدلتے سیاسی منظر نامہ میں سب کوبالخصوص مسلم لیگ ن کو سپریم کورٹ کے فیصلے کااحترام کرناچاہیے ا داروں کیساتھ تصادم ملک کیلئے نقصان دہ ہوگااگر میاں نواز شریف نے نازک حالات کا ادراک نہ کیا اور عدلیہ سے محاذآرائی اور تصادم کی پالیسی نہ چھوڑی تو پھر ایم کیوایم کے سابق قائد الطاف حسین کی طرح ان کے بیانات پہ بھی پابندی لگ سکتی ہے ایسے حالات میں مسلم لیگ ن کے رہنماؤں اورشریف برادران کو احتیاط کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے اگر تصادم کی پالیسی جاری رکھی گئی تو عام انتخابات ملتوی اور جمہوریت کوڈی ریل ہونے سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔