ملک محمد سلمان
یہ کیسا اور کہاں کا انصاف ہے کہ محکمہ پولیس میں سپاہی بھرتی ہونے والا جب ریٹائرڈ ہوتا ہے، تب بھی وہ ایک سپاہی ہی رہتا ہے؟پولیس جیسے اہم محکمہ میں چھوٹے ملازمین کو یکسر نظر اندازی کا سامنا ہے، چھٹی لینے کی خاطر بھی کرسیوں کی ایک لمبی قطار کو پار کرنا پڑتا ہے ۔دنیا کے کسی ملک میں کسی شعبہ میں ڈیوٹی کا دورانیہ 24 گھنٹے نہیں ہے مگر حیران کن طور پر پاکستان میں پولیس کی ڈیوٹی 24 گھنٹے کی ہے جس کی وجہ سے اس کی کارکردگی شدید متاثر ہوئی ہے۔ کئی بار شفٹ سسٹم کے نفاذ کا عندیہ دیا گیا ہے مگر تاحال ایسا نہیں ہوا ۔ دہشت گردی کے سبب ہزاروں جوان جان سے چلے گئے، لیکن اِن مشکل ترین حالات کے باوجود آج بھی پولیس اہلکاروں کے جذبے غیر متزلزل نہیں ہوئے اور تمام تر مشکلات کے باوجود یہ اب بھی ہماری حفاظت کے لیے کمر بستہ ہیں۔
یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ رینکر ز کی نسبت پی ایس پی افسران کا رویہ سائلین کے ساتھ بہت نرم اور ہمدردانہ ہوتا ہے۔پی ایس پی افسران کی ایک طویل فہرست ہے جو نہ صرف فرش شناسی اور دیانتداری سے اپنی ڈیوٹی سر انجام دیتے ہیں بلکہ عام افراد کی خوشی غمی بھی ضرور شرکت کرتے ہیں۔جبکہ کچھ پی ایس پی افسران خدا کی زمین پر خدائی فوجدار بنے بیٹھے ہیں۔طبع نازک پر زرا سی بات کیا ناگوار گزری فوری طور پر تھانے دار معطل ،اور تو اور ظلم کی انتہا دیکھئے معمولی سی وجہ اور حکم عدولی پرچھوٹے افسران کی دو دو سال کی سروس ضبط کرلی جاتی ہے۔عیدین و دیگر تہواروں پر بھی چھٹی نہ ملنے،میرٹ کے باوجود ترقی نہ ملنے کے غم میں پریشان حال پولیس ملازمین پر سروس ضبطی کا فیصلہ کسی آفت سے کم نہیں ہوتا۔ناحق سروس ضبط ہونے کے غم میں سینکڑوں افرادپولیس ڈیپارٹمنٹ کو خیرباد کہ چکے ہیں کچھ بیچارے تو دلبرداشتہ ہوکر خود کشی کرلیتے ہیں۔
کانسٹیبل ،اسسٹنٹ سب انسپکٹرز اور سب انسکٹرز تک کو سزا دینے کا اختیار چونکہ ڈی پی او کے پاس ہوتا ہے اور انسپکٹرز کیلئے سزا کا تعین ڈی آئی جی کرسکتا ہے۔اسی لئے ڈی پی او صاحبان اکثر پولیس اسٹیشن میں سب انسکٹرز کو ہی ایس ایچ او تعنیات کرتے ہیں تاکہ بلا چوں چراں تما م جائز ونا جائز قائم لیے جاسکیں۔انسپکٹرز کی بجائے سب انسپکٹرز کو ایس او لگا کر جعلی پولیس مقابلوں میں بندے پار کرواکے’’سپاری‘‘دینے والوں سے ’’نقد انعام‘‘اور سرکار سے بہادری کے میڈل لیے جاتے ہیں۔ تھانوں کو افرادی قوت اور گاڑیوں کی سخت کمی کا سامنا ہے لیکن بعض پی ایس پی افسران نے چار چار سرکاری گاڑیوں اور جوانوں کی بڑی تعداد کو اپنے عزیزواقارب کی خدمت پر معمور کیا ہوتا ہے ۔میں ذاتی طور پر شاہد ہوں کہ ایس ایس پی اور ڈی آئی جی رینک کے افسران کے بے روزگار، نکمے اور آوارہ بھائی 4×4سرکاری جیپ اور پولیس اہلکاروں کے پروٹوکول کے ساتھ اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہوتے ہیں جبکہ کچھ افسران کے’’ قابل بھائی صاحبان ‘‘ پولیس اسٹیشن میں بندے پکڑوانے اور چھڑوانے کی ’’ڈیلز‘‘کرتے ہیں۔
صوبائی پولیس افسران کی ترقی اور سینیارٹی کو ہر وقت نظر انداز کیا جاتا ہے جبکہ سی ایس ایس کے ذریعے براہ راست بھرتی ہونے والے پی ایس پی کیڈر کو ان پر فوقیت دی جاتی ہے جس سے جونیئر پی ایس پی افسران صوبائی پولیس کے سینئر افسران پر ترقی میں سبقت لے جاتے ہیں اور اکثر اوقات ان کے جونیئر رہنے والے اے ایس پیز ان کے سینئر بن جاتے ہیں جو سرا سر غیر اخلاقی و غیر قانونی ہے۔
2009اور اس کے بعد بھرتی ہونے والے اسسٹنٹ سب انسپکٹر اورسب انسپکٹر کو دس سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود اگلے رینک میں ترقی نہیں مل سکی۔جبکہ 2009اور اس کے بعد اے ایس پی بھرتی ہونے والے سی ایس ایس افسران بطور انڈر ٹریننگ اے ایس پی جس ڈی ایس پی کے زیرنگرانی محرر اور ایس ایچ او سے لیکر ڈی ایس پی تک کے کام کو سیکھتے رہے وہ بیچارے آج بھی وہیں کے وہیں ہیں جبکہ پی ایس پی افسران کو جیسے سرخاب کے پر لگے ہوتے ہیں جس کی مدد سے اڑتے ہی چلے جاتے ہیں۔جبکہ اسسٹنٹ سب انسپکٹر اور سب انسپکٹر کی طرح انسپکٹر اور ڈی ایس پی رینک کے افسران بھی گزشتہ بارہ سال سے ترقی کے منتظر ہیں۔
سی ایس ایس افسران نے صرف پولیس ڈیپارٹمنٹ ہی نہیں بلکہ ہر محکمے میں اپنی اجارہ اداری قائم کر رکھی ہے اور دوسروں کا استحصال کررہے ہیں۔ان افسران میں حاکمیت کافتور اس قدر سرائیت کر چکا ہے کہ اپنے ساتھی بیوروکریٹس’’ پرونشل مینجمنٹ سروسز‘‘ کے افسران کی راہ میں بھی روڑے اٹکانے سے بعض نہیں آتے۔جس کی وجہ سے آئے روز سی ایس ایس اور پی ایم ایس افسران کے درمیان تناؤ کا ماحول دیکھنے کو ملتا ہے۔سی ایس ایس افسران کی ترقی کا سفر تو ہوا کی سپید سے بھی زیادہ تیزی سے اپنی منازل طے کرتا ہے جبکہ دیگر سرکاری ملازمین کی ترقی کے سامنے نہ صرف سوالیہ نشان موجود ہے بلکہ بڑا سا ’’فل سٹاپ لگا دیا جاتا ہے۔اس سے بڑھ کر زیادتی کی کیا مثال ہوگی کہ ایک سی ایس ایس افسر اور صوبائی یا وفاقی محکمے میں گریڈ17میں بھرتی ہونے والا افسر جب تیس سال بعد ریٹائرڈ ہوتا ہے تو سی ایس پی افسر اکیس یا بائیس گریڈ میں جبکہ دوسرا افسر بیچارہ گریڈ19 سے آگے نہیں بڑھ پاتا۔بیوروکریسی کو اپنے رویے میں اصلاح کی ضرورت ہے ورنہ وہ دن دور نہیں جب محکومی اور استحصال کا شکار سرکاری ملازمین کا ہاتھ ان کی گردن تک پہنچ جائے گا۔پی ایس پی افسران کے بنائے استحصالی سسٹم سے پولیس اہلکار مایوس ہوچکے ہیں اور ان کی امید کی واحد کرن عوام کے ووٹ کی طاقت سے منتخب حکمران ہیں۔وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور دیگر صوبائی وزراء اعلیٰ کو چاہئے کہ نہ صرف عوام کے محافظوں کا جائز حق فی الفور ان کو دیا جائے بلکہ سروس ایکٹ میں تبدیلی کرکے سب کیلئے ترقی کے یکساں مواقع فراہم کیے جائیں۔