اسلام آباد (یواین پی) سپریم کورٹ آف پاکستان نے نواز شریف کو پارٹی صدارت سے ہٹانے سے متعلق کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے۔تفصیلی فیصلہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی جانب سے تحریر کیا گیا ہے جو 51 صفحات اور 61 پیراگرافوں پر مشتمل ہے۔ تفصیلی فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ نواز شریف کی 28 جولائی کے فیصلے میں عدالت سے نااہلی ہوچکی ہے اور اس فیصلے میں مدت کا ذکر نہیں ہے، نواز شریف کو پارٹی سربراہ بنانا غیر قانونی عمل ہے، آرٹیکل 62 ،63 پرپورانہ اترنے والاشخص پارٹی عہدیدارنہیں بن سکتا۔ آئین کوبائی پاس کرنے کیلئے ضمنی آئینی قانون سازی نہیں کی جاسکتی کیونکہ شخصیات کیلئے قانون سازی عدالتوں کو آنکھیں دکھانے کے مترادف ہوتی ہے۔
واضح رہے کہ 21 فروری کوچیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے الیکشن ایکٹ 2017 کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کے بعد 5 صفحات پر مشتمل مختصر فیصلہ سنایا تھا جس میں نواز شریف کو پارٹی صدارت سے ہٹادیا گیا تھا۔
چیف جسٹس کے تحریر کردہ 21 فروری کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ حاکمیت اللہ تعالی کے پاس ہے اور اختیار اللہ تعالی کے احکامات کے مطابق مقدس امانت کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ آئین کے آرٹیکل 17کے تحت سیاسی جماعت بنانا ہر شہری کا بنیادی حق ہے لیکن یہ اختیار ملک کی سلامتی ،خود مختاری ،بقا اور اخلاقیات کے تابع ہے، پارلیمانی نظام حکومت میں پارٹی صدر کو کلیدی مقام حاصل ہے اس لئے ایک نااہل شخص کو پارٹی صدر نہیں بنایا جاسکتا۔
عدالت عظمیٰ نے قرار دیا کہ ہر وہ شخص جو آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت اہل نہیں وہ پارٹی صدارت کے لئے بھی نااہل ہے اور یہ پابندی نااہلیت کے دن سے شروع ہوگی اور جب تک نااہلیت برقرار ہے گی وہ پارٹی صدر نہیں بن سکتا۔ کوئی نااہل شخص پارٹی صدر نہیں ہوسکتا، 28 جولائی 2017 کو نااہل ہونے کے بعد بطور پارٹی صدر نواز شریف کے تمام اقدمات، اعمال اور ان کے جاری کردہ دستاویزت غیر قانونی ہیں۔