مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں نے پہلی مرتبہ سینیٹ انتخابات میں آزاد امیدواروں کی حیثیت سے حصہ لیا
سینیٹ الیکشن ، سندھ سے ایم کیوایم مکمل مائنس، پی پی پی کی 11 اور ایک فنکشنل لیگ نے جیت لی
پیپلز پارٹی کے سابق چیئرمین سینٹ رضا ربانی ، مولا بخش چانڈیو ، امام دین شوقین ، مصطفیٰ نواز کھوکھر جنرل نشست پر کامیاب
اسلام آباد(یو این پی) سینیٹ کی 52 نشستوں پر انتخابات کے لیے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں پولنگ مکمل ہونے کے بعد نتائج کا اعلان۔مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں نے پہلی مرتبہ سینیٹ انتخابات میں آزاد امیدواروں کی حیثیت سے حصہ لیا۔قومی اسمبلی میں سینیٹ کی ٹیکنوکریٹ کی نشست پر 300 ووٹ کاسٹ کیے گئے جن میں سے 14ووٹ مسترد کردیئے گئے۔(ن) لیگ کے کامیاب امیدوار۔سینیٹ الیکشن کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج جن کے مطابق مجموعی طور پر (ن) لیگ کے حمایت یافتہ 14 امیدوار کامیاب ہوگئے ہیں۔جنرل نشست پر پنجاب اسمبلی سے (ن) لیگ کے حمایت یافتہ 7 امیدوار کامیاب ہوگئے ہیں جن میں زبیر گل، شاہین خالد بٹ، آصف کرمانی، رانا مقبول احمد بھی شامل ہیں۔وزیراعظم کی ہمشیرہ سعدیہ عباسی اور نزہت صادق بھی خواتین کی مخصوص نشست پر سینیٹر منتخب ہوگئی ہیں۔اقلیتی نشست پرمسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ کامران مائیکل 321 ووٹ لے کر سینیٹ منتخب ہوگئے ہیں۔خیبرپختونخوا سے ٹیکنو کریٹ کی نشست پر مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ دلاورخان کامیاب ہوگئے ہیں۔اسحاق ڈار اور مشاہد حسین بھی کامیاب۔سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی ٹیکنوکریٹ کی نشت پر کامیاب ہوگئے ہیں جب کہ ٹیکنو کریٹ کی نشست پر (ن) لیگ کے حمایت یافتہ حافظ عبدالکریم بھی سینیٹر منتخب ہوگئے ہیں۔مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ امیدوار مشاہد حسین سید بھی اسلام آباد سے ٹیکنو کریٹ کی نشست پر سینیٹر منتخب ہوگئے ہیں۔ مشاہد حسین 223 ووٹ لے کر سینیٹر منتخب ہوئے اور ان کے مد مقابل پیپلزپارٹی کے راجہ شکیل عباسی کو 64 ووٹ ملے۔ اسلام آباد کی دونوں نشستیں (ن) لیگ کے نام۔اسلام آباد کی دونوں نشستوں پر (ن) لیگ کیحمایت یافتہ امیدوار کامیاب قرار پوئے۔اسلام آباد سے جنرل نشست پر اسد جونیجو 214 لے کرسینیٹر منتخب ہوگئے ہیں جب کہ ان کے مد مقابل پیپلز پارٹی کے عمران اشرف کو 48 ووٹ ملے۔مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ مشاہد حسین سید بھی اسلام آباد سے ٹیکنوکریٹ کی نشست پر سینیٹر منتخب ہوئے ہیں۔پیپلزپارٹی کے کامیاب امیدوار۔پیپلزپارٹی نے سندھ سے ٹیکنوکریٹ کی دونوں نشستوں پر کامیابی حاصل کرلی۔ ڈاکٹر سیکندر میندرو اور رخسانہ زبیری ٹیکنوکریٹ کی نشست پر سینیٹر منتخب ہوئے۔سندھ اسمبلی سے پی پی کے رضا ربانی، مولا بخش چانڈیو، مرتضیٰ وہاب،نواز کھوکھر اور محمد علی جاموٹ جنرل نشیت پر کامیاب قرار پائے۔سندھ اسمبلی میں اقلیتی نشست پر پیپلزپارٹی کے انور لال ڈین 100 ووٹ لے کر سینیٹر منتخب ہوگئے ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ کے اقلیتی رکن سنجے پروانی نے 43 ووٹ لیے۔سندھ سے خواتین کی مخصوص نشستوں پر پیپلزپارٹی کی کیوشو بائی اور قرۃ العین مری کامیاب قرار پائی ہیں۔خیبرپختونخوا اسمبلی سے خواتین کی نشست پر پیپلزپارٹی کی روبینہ خالد کامیاب قرار پائی ہیں۔پی ٹی آئی کے کامیاب امیدوار۔خیبرپختونخوا سے تحریک انصاف کی امیدوار مہر تاج روغانی سینیٹر منتخب ہوگئی ہیں جب کہ ٹیکنو کریٹ کی نشست پر پی ٹی آئی کیاعظم سواتی بھی کامیاب قرار پائے ہیں۔خیبرپختونخوا اسمبلی میں مولاناسمیع الحق ٹیکنو کریٹ کی نشست پر کامیاب نہ ہوسکے اور انہیں صرف 4 ووٹ ملے۔فاٹا سے چار سینیٹرز منتخب،فاٹا سے غیر حتمی غیر سرکاری نتائج کے مطابق چار سینیٹرز منتخب ہوگئے ہیں جن میں ہدایت اللہ، ہلال الرحمان، شمیم آفریدی اور مرزا آفریدی کامیاب قرار پائے ہیں۔
بلوچستان اسمبلی کے کامیاب سینیٹرز۔بلوچستان میں 7 جنرل نشستوں پر 15 امیدوار میدان میں تھے جن میں سے 7 نشستوں پر 5 آزاد امیدوار کامیاب ہوئے جب کہ جنرل کی 2 نشستوں پر جے یو آئی (ف) اور نیشنل پارٹی کا ایک، ایک امیدوار کامیاب ہوا۔بلوچستان سے جنرل نشست پر آزاد امیدوار احمد خان، صادق سنجرانی اور انوار الحق سینیٹر منتخب ہوگئے ہیں جب کہ پشتونخوا میپ کے حمایت یافتہ یوسف کاکڑ بھی کامیاب قرار پوئے ہیں۔اس کے علاوہ جے یو آئی کے مولوی فیض محمد بھی سینیٹر منتخب ہوگئے ہیں۔پولنگ کا عمل
سینیٹ معرکے کے لیے پولنگ کا عمل صبح 9 بجے شروع ہوا جو بلاتعطل شام 4 بجے تک جاری رہا۔وقت ختم ہونے کے بعد جو لوگ پولنگ اسٹیشن کے اندر موجود تھے صرف ان ہی کو ووٹ کاسٹ کرنے کی اجازت تھی۔ووٹنگ ٹرن آؤٹ۔بلوچستان اسمبلی میں کل اراکین کی تعداد 65 ہے لیکن گزشتہ روز منظور کاکڑ کو الیکشن کمیشن نے نااہل قرار دیا جس کے باعث تمام 64 اراکین نے ووٹ ڈالے اور اس طرح صوبائی اسمبلی میں ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 100 فیصد رہا۔سندھ اسمبلی کے 161 سے نے ووٹ کاسٹ کیے جن میں سے پیپلزپارٹی کے85 ارکان اور مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ 7 ارکان نے بھی ووٹ ڈالے۔فاٹا کے 11 میں سے8 ارکان نیووٹ کاسٹ کیا، وزیرمملکت غالب خان وزیر، شہاب الدین اور پی ٹی آئی کے قیصرجمال نیووٹ نہیں ڈالا۔عمران خان اور کلثوم نواز نے ووٹ نہیں ڈالا۔چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے اسلام آباد میں موجودگی کے باوجود سینیٹ کے انتخابات میں حصہ نہیں لیا جب کہ سابق وزیراعظم نوازشریف کی اہلیہ کلثوم نواز بیماری کے باعث بیرون ملک موجود ہیں اس وجہ سے ووٹ نہیں ڈال سکیں۔الیکشن کمیشن نے سینیٹ انتخابات میں پولنگ کی نگرانی کے لیے نمائندے مقرر کیے ہیں جن میں الیکشن کمیشن کے چاروں ممبران اور سیکریٹری نگرانی کیلئے موجود رہے۔الیکشن کمیشن کے اعلامیے کے مطابق سیکریٹری الیکشن کمیشن بابر یعقوب خیبرپختونخوا اسمبلی، ممبر الیکشن کمیشن، عبدالغفار سومرو بلوچستان اسمبلی، شکیل بلوچ سندھ اسمبلی اور الطاف ابراہیم قریشی پنجاب اسمبلی میں نگرانی کے لیے موجود ہیں۔سیکریٹری الیکشن کمیشن نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ کسی امیدوار نے کوئی شکایت نہیں کی، سب امیدواروں نے اچھے انتظامات پر اطمینان کا اظہارکیا۔ ہارس ٹریڈنگ کی شکایت کے سوال پر سیکریٹری الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ انہیں کسی نے ایسی کوئی شکایت نہیں کی۔الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کیے گئے ضابطہ اخلاق کے مطابق اراکین کے پولنگ اسٹیشن میں موبائل فون لانے پر مکمل پابندی تھی۔ضابطہ اخلاق کے مطابق بیلٹ پیپر کو خراب کرنے یا اسے پولنگ اسٹیشن سے باہر لے جانے پر مکمل پابندی تھی اور جعلی بیلٹ پیپر استعمال کرنے پر کارروائی کا عندیہ دیا گیا تھا۔الیکشن کمیشن کی جانب سے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر ایک لاکھ روپے تک جرمانہ اور 6 ماہ سے 2 سال تک قید کی سزا رکھی گئی تھی جب کہ الیکشن کمیشن مجاز تھا کہ جرمانہ اور قید کی سزا ایک ساتھ سنا سکے۔یاد رہے کہ سینیٹرز کی آئینی مدت 6 برس ہے اور ہر 3 برس بعد سینیٹ کے آدھے ارکان اپنی مدت پوری کرکے ریٹائر ہوجاتے ہیں اور آدھے ارکان نئے منتخب ہوکر آتے ہیں۔اس مرتبہ بھی سینیٹ کی آدھی یعنی 52 نشستوں پر انتخابات ہونے جا رہے ہیں، جس کے لیے 131 امیدوار آمنے سامنے ہیں۔پنجاب کی 12 نشستوں پر 20 امیدوار حتمی فہرست میں شامل ہیں۔ جنرل نشستوں پر 10، خواتین کی نشستوں پر 3، ٹیکنوکریٹ نشستوں پر 5 جبکہ اقلیتوں کی نشست پر 2 امیدوار میدان میں ہیں۔سندھ کی 12 نشستوں پر مجموعی طور پر 33 امیدوار الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ جنرل نشستوں پر 18، ٹیکنوکریٹ نشستوں پر 6، خواتین کی نشستوں پر 6 جبکہ اقلیتوں کی نشست پر 3 امیدوار مقابلہ کررہے ہیں۔خیبر پختونخوا سے سینیٹ کی 11 نشستوں کے لیے 27 امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہے، جنرل نشستوں پر 14، ٹیکنوکریٹ نشستوں پر 5 اور خواتین کی نشستوں پر 8 امیدوار مقابلے کی دوڑ میں ہیں۔بلوچستان کی 11 نشستوں پر 25 امیدوار سینیٹ الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں، ، جنرل نشستوں پر 15، خواتین کی نشستوں پر 6 جب کہ ٹیکنوکریٹ نشستوں پر 4 امیدواروں کے درمیان جوڑ ہے۔دوسری جانب فاٹا کی 4 نشستوں پر 24 اور اسلام آباد کی 2 نشستوں پر 5 امیدوار مد مقابل ہیں۔سابق وزیراعظم نواز شریف کی بطور پارٹی صدر نااہلی کے بعد پہلی بار مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ امیدوار آزاد حیثیت میں انتخاب لڑیں گے۔سینیٹ انتخابات کے موقع پر ماحول پر امن رکھنے کے لیے الیکشن کمیشن کی ہدایت پر وزارت داخلہ نے اسمبلیوں کی سیکیورٹی رینجرز کے سپرد کر رکھی تھی اور رینجرز کی بھاری نفری اسمبلیوں پر موجود رہے۔پشاور میں پولنگ کے موقع پر خیبرپختونخوا اسمبلی اور قریبی عمارتوں کو ریڈ زور قرار دیا گیا، اسمبلی اور اطراف میں 400 سے زائد پولیس اہلکار بھی سیکیورٹی کے لیے تعینات تھے۔