از :ایس۔اے۔صہبائی
اسلام کی تاریخ روز اول سے لے کر آج تک توحید و رسالت کی تابانیوں سے فیض یاب اور نورِ عرفان و حقیقت سے آراستہ ہستیوں سے بھری پڑی ہے ۔ ابوبکرؓ و عمرؓ ،عثمانؓ و حیدرؓ ایسے نجم ہائے ہدایت سے لے کر جنیدؒ و رومیؒ ،بہاؤالدین بخاریؒ ، شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ اور حضرت علی ہجویری ؒ جیسی عظیم شخصیتوں نے اس راہِ سلوک کو نہ صرف زندہ و تابندہ رکھا بلکہ نئی جہتوں سے آشنا کیا ۔ محبوبِ حقیقی ’’خالقِ کائنات ‘‘کی محبت سے سرشاری اور وارفتگی کی ایسی ایسی داستانیں رقم کیں جو سالکانِ راہ کو نئے ذوق و شوق اور ولولہ اور عزم سے آشنا کرتی ہیں۔
حضرت خواجہ عبدالحکیم انصاری ؒ کے نزدیک ارتقاء انسانی کی اصل بنیاد اور اپنی منزل کی طرف پرواز کا نام ہی سلوک ہے ۔ راہِ حق کے سالکان کے لیے ذکر و فکر ،عبادت و فرمانبرداری، پاکیزگی و طہارت،عدل و انصاف ،توکل و استقلال انفاق فی سبیل اللہ اور محبت و صداقت حقیقی زادِ راہ ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی اور لقاء و معرفت کے اعلیٰ مدارج اس مبارک سفر کے ثمرات ہیں۔
حضرت خواجہ عبدالحکیم انصاری ؒ ایک عدیم المثال بزرگ اور عصر حاضر کی نابغہ روزگار شخصیت تھے۔ بے پناہ روحانی قوت اور کشف و کرامات کے حامل ہونے کے ساتھ ساتھ محبت و صداقت ،عفو و درگزر ، حلم وبردباری، ایثار و قربانی ، صبر و تحمل ، خدمت انسانی اور اخلاص کا پیکر تھے۔ خاص و عام جو بھی آپ ؒ سے ملا۔ پہلی ہی ملاقات میں گرویدہ ہوگیا آپ ؒ محبت کا ایک ایسا اتھاہ سمندر تھے کہ جنہیں دیکھ کر ڈاکٹر نصیر احمد ناصر جیسا شخص بھی بے ساختہ پکار اٹھا کہ میں نے آپ جیسا ’’اہلِ حسن و محبت ‘‘زندگی بھر نہیں دیکھا۔ بڑے بڑے امراء و رؤسا،حکومتی عہد ے دار ان اور افسران بالا آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے مگر آ پ جاہ و حشم کی طمع سے ہمیشہ بے نیاز رہے غرور و تکبر یالالچ اور ذاتی غرض و غایت کبھی آپ ؒ کے قریب نہ پھٹکی آپ ؒ شریعت کے سخت پابند بلکہ مجسمِ شریعت تھے۔ دانش مندی، علم و فراست ، صفائے قلب، عاجزی و انکساری اور خدمت خلق کا جذبہ آپ کی دلنشین شخصیت کا طرۂ امتیاز رہا۔ سائنسی ،لسانی و نفسیاتی علوم،حالات حاضرہ و معاشرتی حقائق اور دنیاوی معاملات کا ہر پہلو آپ کی مکمل دسترس میں تھا۔ علمِ معرفت میں درجہ کمال حاصل تھا اور اللہ رب کریم کی قرب و یاری ’’ناز‘‘ کی حد تک حاصل تھی۔ ع کہ می نَازَد بہ قرب و یارئِ تُو
آپ ؒ کی زندگی کشف و کرامات کے واقعات سے بھری پڑی ہے لیکن آپ ؒ نے کبھی بھی ان کو روحانیت کا معیار تسلیم نہ کیا۔ آپ ؒ کے نزدیک بزرگی کا اصل معیار ’’اخلاق حسنہ ‘‘ رہا۔ یہی وجہ ہے کہ آپؒ روحانی تربیت کے ساتھ اپنے مریدوں کی اخلاقی اصلاح پر بھی بہت توجہ دیتے۔ انہیں غصہ و نفرت چھوڑنے اور عالمگیر محبت و صداقت اپنانے کا حکم دیتے۔ اپنے مریدین کے ساتھ دل کی گہرائیوں سے محبت کرتے اور زندگی کے ہر شعبے اور ہر معاملے میں ان کی رہبری اور رہنمائی فرماتے۔ اپنے خطبات میں باریک سے باریک موضوع اور لطیف سے لطیف خیال کی وضاحت کے لیے جس قدر سلیس اور عام فہم زبان کا انتخاب آپ ؒ نے فرمایا وہ آپ ؒ ہی کے موئے قلم کا اعجاز ہے ۔
سادگی اور صاف گوئی آپ ؒ کی تعلیم کا خاصہ رہا۔ چنانچہ فرماتے ہیں۔ ’’مجھے حلقہ کی تعداد بڑھانا ہر گز منظور و پسند نہیں میں تو چاہتا ہوں کہ حلقہ میں کم سے کم آدمی ہوں ۔ لیکن وہ سب کے سب عقیدے کے لحاظ سے پکے مسلمان اور توحیدی اور اعمال و اخلاق کے لحاظ سے اعلیٰ درجے کے مومن ہوں ۔‘‘قبلہ انصاری ؒ کی تعلیم سعید کا مقصدِ وحید ’’توحید‘‘ کی بنیاد پر تعمیر ملت ہے اور آپ ؒ کے نزدیک تصوف کا موضوع و مقصد ذاتِ باری تعالیٰ کی معرفت و حقیقت کا ادراک ہے ۔
قبلہ انصاریؒ صاحب انتیس (29)جولائی اٹھارہ سو ترانویں1893ء بروز ہفتہ دہلی کے قریب قصبہ فرید آباد میں پیدا ہوئے۔ آپ ؒ کی والدہ ماجدہ امہ العائشہ سادات خاندان کی ایک نہایت مطہر، پاکباز اور نیک خاتون تھیں۔ والد ماجد حافظ عبدالرحیم اور دادا حضور مولانا عبدالعزیز اپنے وقت کے جید عالمِ دین اور متشرع صوفی ہونے کے ساتھ لکھنؤ میں صدر اعلیٰ یعنی سینئر سب جج کے عہدے پر فائز تھے۔ پردادا حضور بھی عابد و زاہد بزرگ تھے اور ان کا زیادہ وقت ایبٹ آباد میں گزرا۔ آخر میں پنجاب میں کرنال کے مقام سے ای۔اے ۔سی کے عہدہ سے ریٹائر ہو کر فرید آباد چلے گئے۔ آپ ؒ کے خاندان عالیہ کا شجرہ نسب حضرت ابو ایوب انصاری ؒ سے جاملتا ہے۔ آپ ؒ نے اپنے خطبات میں اپنے بچپن سے لے کر گوہر مقصود ملنے تک کی تمام روحانی اور ذاتی زندگی کو تفصیل سے رقم کیا ہے ۔
آپ ؒ کابچپن اپنے دادا حضور کی شفقت بھری گود میں گذرا۔ دادا حضور کے پاس ہر قسم کے مولوی ،ملنگ،مجذوب،فقیر اور متشرع بزرگوں کا ڈیرہ رہتا یوں کم عمری ہی میں آپ ؒ نے علم و معرفت کے کئی رنگ دیکھ ڈالے۔ پانچ برس کی عمر میں ہی آپ ؒ کونماز ، درود شریف اور کئی سورتیں اور دعائیں ازبر تھیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ودیعت کی گئی بے شمار خوبیوں اور صلاحیتوں کو دادا حضور کی صحبت نے گوہر یگانہ بنادیا۔ آپ ؒ کے گہرے مشاہدے اور طلب صادق سے آپ کے قلب و روح میں وجدان و عرفان کے سوتے پھوٹ پڑے۔ کشف و کرامات کا ظہور لڑکپن میں ہی ہونے لگا۔ مگر توحید کا رنگ آپ کی شخصیت پر ہمیشہ غالب رہا ۔ 1902ء میں جب آپ قریباً دس برس کے تھے آپ کے دادا حضور اس دنیائے فانی سے تشریف لے گئے۔ ان کی طرف سے آپ کے دل میں لگایا ہوا عشق الٰہی کا چراغ ،ان کی وفات کے بعد بھی اللہ کے قرب و دیدار کی تڑپ کو فزوں تر کرتا رہا۔ یہی تڑپ آپ کو کشاں کشاں لئے پھرتی۔ بے شمار پیروں فقیروں سے ملے مگر کہیں بھی دل نہ جما۔
ایک دن اپنے قریبی دوست شیخ عبدالرحمن دہلوی کے توسل سے حضرت مولانا کریم الدینؒ کی خدمت میں حاضرہوئے جس کا تفصیلی ذکر آپ نے اپنے سالانہ خطبات پر مشتمل کتاب ’’چراغِ راہ ‘‘میں بڑے دلنشیں پیرائے میں کیا ہے ۔ حضرت مولانا کریم الدین احمد ؒ کے زیرِ تربیت ، انتھک محنت اور خداد اد صلاحیتوں کی بدولت تین برس کی قلیل مدت میں سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کا سلوک طے کرلیااور یوں محض اکیس برس کی عمر میں آپ کے مرشد مکرم نے آپ کو بیعت لینے کی تحریری اجازت مرحمت فرمادی مرشد معظم کے وصال شریف کے بعد آپ مراد آباد میں سلسلہ عالیہ چشتیہ کے ایک بلند پایہ بزرگ حضرت محمد قاسم ؒ کے دستِ شفقت پر بیعت ہوئے اور سلسلہ چشتیہ کا سلوک طے کیا۔
لیکن اصل گوہرِ مقصو د لقاء و دیدار تعالیٰ پھر بھی میسر نہ آیا۔ حضرت مولانا کریم الدین ؒ کے ارشاد جس میں آپ ؒ نے فرمایا تھا کہ ’’تمہارے دل میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایک ایسی چیز پیدا کی ہے کہ جب تک تم زندگی میں خدا کو دیکھ نہ لو گے مرو گے نہیں ‘‘۔
نے آپ کو ایک ایسی تڑپ سے بہرہ ور کردیا تھا کہ آپ اس چیز کی طلب میں پھر سرگرداں ہوگئے ۔ اپنے مرشد ثانی حضرت محمد قاسم ؒ کی رحلت کے بعد آپ نے سلسلہ عالیہ قادریہ اور سلسلہ عالیہ سہروردیہ کا بالا ستجاب مطالعہ کیا۔ یہ وہ دن تھے کہ دیدار الٰہی کی طلب نے آپ کو بے حال کر رکھا تھا۔ دن رات اسی سوچ و استغراق میں گم رہتے ایک رات دیدار الٰہی کی تڑپ میں روتے روتے سوگئے تو خواب میں دادا حضور ؒ کو دیکھا انہوں نے آپ کو پیار کیا اور فرمایا۔’’حکیم رویا مت کرو تمہارا دوست محمد حنیف تمہیں ملے گا تو سب کچھ مل جائے گا۔‘‘صبح اٹھتے ہی آپ نے ڈائری میں خواب نوٹ کیا اس کے بعد آٹھ برس یہی ہوتا رہا کہ جب بھی کسی محمد حنیف نامی شخص کا پتہ چلتا اس سے ملتے مگر مطلوبہ بزرگ نہ ملے ۔ آخر رحمت خداوندی جوش میں آئی اور اکتوبر 1928ء کی ایک شام بلگام کے مقام پر آپ کی ملاقات مطلوبہ اویسی بزرگ جناب رسالدار محمد حنیف خاں صاحب ؒ سے ہوگئی اور ان کے توسط سے آپ کو خداوند کریم نے اپنے لقاء اور دیدار سے نواز دیا۔ آپ جناب رسالدار محمد حنیف خاں ؒ کی صحبت میں 1947ء تک رہے ۔قیام پاکستا ن پر جناب رسالدارؒ صاحب اپنے فرائضِ منصبی کی ادائیگی کے دوران شہید ہوگئے جب کہ قبلہ انصاری ؒ بذریعہ ٹرین لاہور اور پھر لاہور سے صرف دو ہفتے بعد کراچی تشریف لے گئے۔
دسمبر 1947ء میں پاکستان ایئر فورس ڈرگ روڈ کی ٹریڈ ٹریننگ سنٹر لائبریری میں لائبریرین مقرر ہوئے۔ 1952ء مذکورہ سنٹر کوہاٹ چلا گیا تو آپ کا تبادلہ ملیر کینٹ ہوگیا۔ جہاں 1954ء تک رہے ۔ اس کے بعد آپ بنوں تشریف لے گئے ۔ قیام کراچی کے دوران آپ سے کئی ایسی کرامات سرزد ہوئیں کہ چاہنے کے باوجود آپ اپنے آپ کو اہلِ نظر سے چھپا نہ سکے۔ آپ جس کے لیے دعا فرماتے اللہ ان کے کام کردیتا۔ یوں آہستہ آہستہ آپ کے معتقدین کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔ آپ کے عقیدت مندوں میں محمد ابراہیم نامی ایک پروفیسر صاحب بھی تھے جن کی ایک بیٹی عطیہ بانوکے بارے میں مشہور تھا کہ اسے روحیں نظر آتی ہیں۔ پروفیسر صاحب کا کراچی سے بنوں تبادلہ ہوا تو قبلہ انصاری ؒ صاحب ان کی درخواست پر بنوں تشریف لے گئے۔ وہیں 1954ء میں آپ ؒ کی ملاقات گوہر نایاب قبلہ عبدالستار خاں ؒ صاحب ان کے اہلِ خانہ اور والد ماجد حاجی علی محمد ؒ صاحب سے ہوگئی۔ پروفیسر ابراہیم صاحب کا تبادلہ دوبارہ کراچی ہوگیااور آپ ؒ نے قبلہ عبدالستار خاں ؒ صاحب اور ان کے دوست مسیح الظفر کی درخواست پر بنوں قیام کا ارادہ فرمالیا۔ بنوں قیام کے دوران ہی آپ نے تصوف کے موضوع پر لکھی گئی شہرہ آفاق کتاب ’’تعمیر ملت ‘‘تصنیف کرنا شروع کی۔ قبلہ عبدالستار خان ؒ صاحب سے آپ کی محبت روز افزوں بڑھنے لگی نتیجتاً مورخہ پانچ اگست 1955ء بروز جمعۃ المبارک شام 5بجے قبلہ عبدالستار خاںؒ صاحب نے آپ ؒ کے دستِ شفقت پر باقاعدہ بیعت کر لی اور یہی مبارک لمحہ سلسلہ عالیہ توحیدیہ کے قیام کا نقطہ آغاز بنا قبلہ خواجہ عبدالحکیم انصاری ؒ صاحب نے قبلہ عبدالستار خان ؒ صاحب کو بیعت کرتے ہی فرمایا کہ آج سے جو کوئی بھی ہم سے ہمار ے سلسلہ کے بارے میں پوچھے توہم علی الاعلان کہیں گے ’’سلسلہ عالیہ توحیدیہ‘‘۔
قبلہ عبدالستار خان ؒ صاحب نے جو اپنی ملاقات کے پہلے دن ہی سے انصاریؒ صاحب پر جان و دل فدا کرچکے تھے۔بیعت ہوتے ہی مجسم اطاعت بن کر اپنی زندگی اپنے ہادی و مرشد کی خدمت کے لیے وقف کردی۔ قبلہ عبدالستار خان ؒ صاحب محبت کا ایک ایسا اتھاہ سمندر تھے کہ جس سے ہر کوئی بلا تفریق فیضیاب ہوا۔ آپ شریف النفس،حلیم الطبع،صبر و شکر اور عفو و درگزر کی ایک ایسی مثال تھے کہ دشمنوں پر بھی احسان فرماتے اور شفقت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑتے۔ آپ کے مریدین و معتقدین میں سے کون ہوگا جو آپ کی دل نشین و دل آویز شخصیت ،نہایت ٹھنڈے میٹھے مزاج اور محبت کی پھوہار سے بہرہ ور و فیضیاب نہ ہوا ہو۔ آپ کا اخلاق ، اخلاقِ محمدی ﷺ کا مکمل نمونہ تھا۔ آپ کی روحانیت خسرو نظام کی یاد تازہ کرتی تھی۔ مرشد کی اطاعت میں درجہ کمال پانے والے قبلہ عبدالستار خان ؒ صاحب کی شخصیت اور بزرگی پہ لکھنا ،ان کی محبت کی گہرائیوں کا احاطہ کرنا بندہ ناچیز کے بس سے باہر ہے ۔ قبلہ انصاری ؒ صاحب کے ارشاد کے مطابق ’’اطاعت سیکھنی ہو تو ستار خان سے سیکھو‘‘مزید فرماتے’’میں نے خود اطاعت کرنا خان صاحب سے سیکھا‘‘۔قبلہ محترم اپنے تمام مریدین کو غصہ اور نفرت نفی کرنے کی تعلیم و تلقین فرماتے مگر خان عبدالستار خان صاحبؒ کے بارے میں اکثر فرماتے کہ ’’انہیں کسی بھی بات پر غصہ نہیں آتا ‘‘اور حقیقت میں بھی یہی ہے کہ کسی بھی شخص نے قبلہ عبدالستار خان صاحب ؒ کو کبھی غصہ میں نہ دیکھا۔
اپنے خلافت و جانشینی کے لئے قبلہ انصاری ؒ صاحب کی نگہ گوہر شناس نے پہلی ہی ملاقات میں قبلہ عبدالستار خان ؒ صاحب کا انتخاب فرمالیا تھاچنانچہ جنوری 1961ء میں ایک وصیت نامہ کے ذریعے آپ کو اپنا واحد خلیفہ و جانشین مقرر فرمادیا۔جس میں اپنے تمام مریدین کو قبلہ خان ؒ صاحب کی بلاچون و چرا اطاعت کا حکم دیا۔بعد ازیں مورخہ 13اپریل 1968ء کو پرنس ہوٹل لاہور میں سلسلہ عالیہ کے سالانہ کنونشن میں کے موقع پر مندرجہ ذیل الفاظ کے ساتھ آپ کی خلافت و جانشینی کی توثیق فرمائی اور تمام احباب حلقہ کو آپ ؒ کے دستِ مبارک پر بیعت خلافت کرنے کا حکم دیا’’صاحب موصوف جن کی تقرری کا اعلان اسی مجلس میں کیا جائے گا وہ روحانی مراتب اور اخلاقی بزرگی میں مجھ سے کسی طرح کم نہیں۔ اس لیے میں آپ سب کو ہدایت کرتا ہوں کہ اگر آپ کو میری دی ہوئی تعلیم سے محبت ہے تو آپ سب کو میرے اس حکم کی تعمیل میں آج ہی کے جلسے میں صاحب موصوف کے ہاتھ پر بیعتِ خلافت کرنا ہوگی۔ ‘‘(یاد رہے کہ سلسلہ عالیہ توحیدیہ میں ایک وقت میں ایک ہی خلیفہ ہوتا ہے جو سلسلہ کا واحد روحانی پیشوا ہوتا ہے دیگر سلاسل کی طرح بہت زیادہ خلفاء نہیں ہوتے)۔
اپنے وصال شریف سے قبل خواجہ عبدالحکیم انصاریؒ نے سلسلہ کے تمام معاملات کے لیے جناب قبلہ عبدالستار خان ؒ صاحب کواپنا وصی اور مختارمقرر فرمایایوں آسمان روحانیت کا یہ درخشندہ ستارہ انسانی اصلاح و تربیت اور تعمیرِ ملت کا یہ مشن قبلہ عبدالستار خان ؒ صاحب کے سپرد کرکے مورخہ 23جنوری1977ء کی شام 5بجے اپنے محبوب حقیقی سے جا ملا۔ قالو انا للہ وانا الیہ راجعون۔ آپ کی رحلت کے بعد آپؒ کے واحد خلیفہ و جانشین قبلہ عبدالستار خان صاحب دسمبر 1990ء تک متلاشیانِ حق کی رہبری فرماتے رہے۔ قبلہ عبدالستار خانصاحب ؒ نے اپنے وصال سے قبل اپنی حیاتِ مبارکہ ہی میں قبلہ غلام رسول شاہد صاحب کو اپنا واحد خلیفہ و جانشین مقرر فرماکر تمام احبابِ حلقہ سے بیعتِ خلافت لی۔ قبلہ غلام رسول شاہد صاحب نے 1991ء میں پاکستان ائیر فورس سے قبل از وقت ریٹائر منٹ لی اور اپنے آپ کو سلسلہ عالیہ کی خدمت کے لیے وقف کر دیا دینِ اسلام کی سر بلندی اور اخلاق عالیہ کا فروغ آپ کا مشن ہے اور اللہ کا قرب ولقا آپ کا مقصود و مطلوب ۔ آپ کے مریدین کا سلسلہ پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔ پاکستان و دیگر ممالک میں آپ کی کاوشوں سے سینکڑوں لوگ مسلمان ہوئے۔
امسال سلسلہ عالیہ توحیدیہ کے زیرِ اہتمام سلطان الاولیاء حضرت خواجہ عبدالستار خانصاحب ؒ اور بانی سلسلہءِ توحیدیہ حضرت خواجہ عبدالحکیم انصاریؒ کی برسی 21 تا24 مارچ2018 ئمرکزِ توحیدیہالحکیم 92 جی،ماڈل ٹاؤن،لاہور میں انتہائی عقیدت و احترام کے ساتھ شیخِ سلسلہ حضرت خواجہ قبلہ غلام رسول شاہد مدظلہ کی زیرِ سرپرستی انعقاد مذیر ہو گا۔
سلسلہ عالیہ توحیدیہ کا مرکز ماڈل ٹاؤن لاہور میں واقع ہے جہاں ہزاروں طالبانِ رشد و ہدایت شب و روز اپنے قلوب کو نورِ توحید سے منور کرتے ہیں۔ اس مرکز توحید پر ذکر و فکر کی مجالس کے علاوہ درسِ قرآن، دورۂ حدیث اور مختلف اسلامی و معاشرتی موضوعات پر تربیتی اجتماعات کا انعقاد باقاعدگی سے ہوتا ہے۔سالانہ اجتماعات سمیت مختلف دورانیہ کے یہ پروگرام خواتین و حضرات کے لیئے علیحدہ منعقد ہوتے ہیں۔