تحریر: رانا اعجاز حسین چوہان
گزشتہ دنوں بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے اسلامی نظریہ کونسل پاکستان کے چیئرمین قبلہ ایاز نے کہا کہ بیک وقت تین طلاقوں کو قابل سزا جرم قرار دیا جائے گا، اس سلسلے میں سفارشات تیار کر لی گئی ہیں جو جلد ہی پارلیمان میں پیش کر دی جائیں گی۔ تا ہم اس پر بل تیار کر رہے ہیں جو وزارت قانون کو بھیجا جائیگا اور وہ اس پر سزا تجویز کر یں گے۔ اس قانون کے نفاذ کے بعد بیک وقت تین طلاقوں کی ممانعت کی جائے گی اور یہ قابل سزا جرم ہو گا۔اس سوال پر کہ کیا بیک وقت تین طلاقیں دینے کی صورت میں طلاق ہو جائیگی تو قبلہ ایاز نے کہا کہ طلاق تو ہو جائیگی تاہم اس سلسلے میں حتمی فیصلہ عدالت میں قاضی کریگا‘‘۔ اس بل کے مطابق بیک وقت تین طلاقیں دینے والے شخص کو قید کی سزا ہو گی جبکہ خاتون کو گزر بسر کے لیے خرچ اور بلاوجہ طلاق پر جرمانہ بھی عائد کیا جا سکتا ہے۔بحالت مجبوری یعنی جب کسی صورت میاں بیوی کا نبھاہ نہ ہو سکے ایسی صورت میں اسلام نے مرد کو طلاق کا حق تو دیا ہے مگر اس کو سخت نا پسندیدہ فعل قرار دیا ہے۔ آج کل کے معاشرے میں جہاں عدم برداشت اور قدم قدم پر فرائض کی ادائیگی کے بجائے صرف حقوق کی بات کی جاتی ہے ایسے حالات میں طلاق کی شرح بہت زیادہ ہوگئی ہے۔ جبکہ غصے کی حالت میں اٹھائے گئے اس قدم سے جہاں دو خاندان تباہ ہوجاتے ہیں وہاں ننے معصوم بچوں کی باقی ماندہ زندگی بھی اجیرن ہوجاتی ہے۔ اس سخت قدم کے بعد لوگوں کے پاس سوائے پچھتاوے کے کچھ نہیں رہ جاتا، ایسے حالات میں لوگ علماء کرام سے رابطہ کرتے ہیں اور مختلف عذرام پیش کرتے نظر آتے ہیں کہ جناب بچے چھوٹے ہیں ، غصے کی حالت میں طلاق دے دی ہے، تو اکثر علماء کرام کا جواب ہوتا ہے میاں غصے کی حالت میں ہی ایسا ہوتا ہے پیار میں طلاق کون دیتا ہے، پھر کبھی کس مسلک کے عالم سے کبھی کسی دوسرے مسلک کے عالم دین سے رابطہ کرکے کوئی حل نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایسے حالات میں جب معاشرے میں طلاق کے مسائل روز بروز بڑھ رہے ہوں حکومت پاکستان اور اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان سے ایسے مسائل کے تدارک کے لیے ٹھوس قانون سازی کا مطالبہ کیا جارہا تھا ، تاکہ کوئی غصے کی حالت میں ایسا فیصلہ نہ کرسکے جس سے کسی کی زندگی برباد ہوجائے اور مطلق کو بعد میں پچھتانا پڑے۔
واضع رہے کہ سال 2015 ء کے شروع میں بھی اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کے چےئرمین جناب مولانا محمد خان شیرانی نے اپنے زیر صدارت دو روزہ اجلاس میں متعدد سفارشات کی منظوری دی تھی جن میں ایک اہم شفارش یہ تھی کہ’’ بیک وقت تین طلاقیں غیراسلامی اور شریعت کے منافی ہیں۔ اور خاوند کی جانب سے بیک وقت بیوی کوطلاق ثلاثہ کو قابل سزا جرم سمجھا جائے گا‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’شریعت میں طے شدہ طریقہ کار کے مطابق ایک خاوند اپنی بیوی کو ایک وقت میں ایک ہی طلاق دے سکتا ہے‘‘۔ اس طرح پاکستان میں نافذ قوانین کو اسلامی شریعت کے مطابق ڈھالنے کے ذمہ دار آئینی ادارے اسلامی نظریاتی کونسل نے ایک وقت میں اکٹھے تین طلاقوں کی حوصلہ شکنی کے لیے اس فعل کو قابل سزا جرم قرار دینے کی سفارش کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو شخص اسٹامپ پیپر پر بھی اکھٹی تین طلاقیں لکھے اسے بھی سزا دی جائے۔ عوامی و سماجی حلقوں اور مختلف مکتبہ فکر کے لوگوں کی جانب سے اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کے اس فیصلے کو بہت سراہا گیا تھا۔ اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان نے مذکورہ بالا فیصلے میں قرار دیا تھا کہ ’’ مرد اپنی بیوی کو تین الگ مجالس میں یونین کونسل یا عدالت کے ذریعے طلاق کے نوٹس بھجوائے گا اور اس کے بعد دونوں کے درمیان علیحد گی ہوسکے گی‘‘۔ اس وقت اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان نے وضاحت کی تھی کہ اس فیصلے کے نفاذ کے بعد ’’ایک طلاق دینے کے بعد خاوند کو اپنی بیوی سے رجوع کرنے کا حق حاصل ہوگا، دوسری طلاق کے بعد وہ دونوں میاں بیوی دوبارہ نکاح کرکے اکٹھے رہ سکیں گے ، لیکن تیسری طلاق کے بعد وہ کسی صورت اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ اس صورت میں اب وہ عورت اپنے اس سابقہ خاوند سے براہ راست نکاح نہیں کرسکتی۔ جبکہ کسی دوسرے مرد سے نکاح اور پھر اس شوہر سے بھی مذکورہ بالا نئے قانون کے مطابق اتفاقی طلاق کی صورت میں وہ اپنے پہلے خاوند کے عقد میں آسکے گی‘‘۔ مولانا شیرانی نے اکھٹے تین طلاقیں دینے والے خاوند کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے قید یا جرمانے کی صورت میں کوئی سزا تجویز نہیں کی تھی ،بلکہ اس کو متعلقہ عدالتوں پر چھوڑ ا تھا کہ وہ جو چاہیں سزا دے سکتی ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں بھی جید علمائے کرام کی مشاورت کے بعد اسلامی نظریاتی کونسل کے ان لائق تحسین فیصلوں کو قانونی شکل دی جائے ۔ اور قرار دیاجائے کہ جیسے نکاح خاندان کے لوگوں اور گواہان کی موجودگی میں ہوتا ہے اسی طرح طلاق بھی گواہا ن کی موجودگی میں ، اور تین الگ مجالس میں ہوں تاکہ اس پرفتن دور میں ہر قسم کے سقم اور شک و شبے سے بالاتر ہو۔ افسوس کا مقام ہے کہ یہاں سیاسی شخصیات کے تحفظ کے لئے تو قانون سازی کی جاتی ہے مگر عوامی مسائل یکسر نظر انداز کردئے جاتے ہیں، جبکہ معاشرے میں پھیلے مسائل کا تدارک ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہونی چاہئے، تاکہ معاشرہ اسلامی اقدار کے مطابق پھل پھول سکے۔ اسلام دین فطرت ہے، سماجی مسائل کے حل کے لئے عائلی قوانین کو شرعی قوانین کے مطابق ڈھالا جاسکتا ہے، ایسی قانون سازی سے جہاں تفرقے بازی کا خاتمہ ہوگا وہاں قانون کی بالا دستی ہوگی اور سوچ سمجھ کر اٹھائے گئے فیصلوں کے باعث عدالتوں سے فیملی مقدمات کا بوجھ بھی کم ہو سکے گا۔