تحریر:محمد یاسین سیال عبدالحکیم
آج سے تقریباٰ ستر سال قبل جب تحریک آزادی پاکستان اپنے فیصلہ کن مراحل میں تھی تو اس وقت تحریک آزادی پاکستان کی طرف سے لاہور میں مینار پاکستان کے سبزہ زار میں ایک بہت بڑا اجتماع منعقد کیا جس میں مفکر پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے ایک قرار داد پیش کی جس میں اس عزم کا فیصلہ کیا گیا کہ ایک آزاد اسلامی ریاست کے حصول کے لئے متحد ہوکر جدوجہد کرنی ہے اس مقصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں جدوجہد جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا اور عظیم جانی ،مالی قربانیوں کے بعد 14اگست 1947کو ایک آزاد اسلامی سلطنت اسلامی جمہوریہ پاکستان معرض وجود میں آئی قیام پاکستان کے بعد مسلمان قوم نے سکھ کا سانس لیا مگر بد قسمتی سے جاگیردار اور سرمایہ دار طبقہ نے اس آزاد اسلامی ریاست کے وجود کو دل سے تسلیم نہ کیا اور اس کے قیام کے ساتھ ہی ریاست سے سیاست کا کھیل شروع کر دیا جس کے نتیجہ میں پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں گولیوں کا نشانہ بنایا گیا جس کے شواہد آج تک منظر عام پر نہ لائے جا سکے لیاقت علی خان کی شہادت سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ دن بدن بڑھتا گیا کبھی کسی منتخب عوامی حکومت پر آمر کی یلغار تو کبھی کسی سپہ سالار کے خلاف عوامی ردعمل اس مملکت میں روز مرہ کا معمول بن گیا اداروں اور عوامی قیادت کے درمیان اختلافات نے ہمارے ملک کی سا لمیت کو خطرے میں ڈال دیاجس کی وجہ سے قوم کو 1971میں ایک عظیم سانحہ کا سامنا کرنا پڑا اور بنگلہ دیش ہم سے جدا ہوگیا اس سانحہ سے سبق حاصل کرنے کی بجائے ہماری سیاسی پارٹیوں اور اداروں نے ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرانا شروع کر دیا اور انتشار اور ٹکراؤ کے عمل کو جاری رکھا ستر سال سے جاری اس عمل کی وجہ سے آج ہمارا ملک تاریخ آزادی جیسی حالت میں آن پہنچا ہے جس کی وجہ ہم نے حصول پاکستان کے مقصد کو چھوڑ کر اپنی ذاتی خواہشات اور غیر مسلم کی خوشنودی کو اہمیت دینا شروع کر رکھا ہے حالانکہ ہمارا مذہب اسلام مکمل ضابطہ حیات بتاتا ہے اور اس میں حکمرانی کے تمام اصول موجود ہیں بہتر تو یہ تھا کہ ہم نے یہ ملک جب حاصل اسلام کے نام پر کیا تھا تو اس میں رہنمائی بھی اسلام سے حاصل کرنی چاہیے تھی اسلام ہمیں برابری کا درس دیتا ہے نظام عدل ہو یا معاملات زندگی ہوں ہمیں محمود و ایاز کو ایک ہی صف میں کھڑا کرنا ہے اور اگر ہم اپنی بنیاد کو بھول کر ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لئے ( مغرب ) یورپ سے رہنمائی کو اہمیت دیں گے تو پھر حالات سنورنے کی بجائے بگڑیں گے آج پاکستانی قوم اداروں اور سیاسی پارٹیوں کے تصادم کی وجہ سے پریشان ہے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال کی روحیں چیخ چیخ کر سوال کر رہی ہیں کہ تم نے ہمارے خواب اور جدوجہد کو اہمیت دینے کی بجائے ریاست سے جو سیاست شروع کر رکھی ہے اسے ختم کر کے اپنے بنیادی مقصد کی طرف لوٹ آؤ ورنہ تمہاری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں ، ستر سال بعد آج ہمیں یوم پاکستان کے موقع پر دوبارہ تجدید عہد کرنا ہے کہ ایک آزاد اسلامی ریاست اسلامی جمہوریہ پاکستان کے خلاف اٹھنے والی ہر سازش کو ناکام بنانا ہے اور متحد ہو کر دنیا کو پیغام دینا ہے کہ پاکستانی قوم متحد ہے اور وہ اپنے پیارے ملک کی سا لمیت اور بقاء پر بڑی سے بڑی قربانی سے دریغ نہیں کرے گی اور اس ملک کی سا لمیت سے کسی کو کھیلنے کی اجازت نہیں دینگے اداروں کے ٹکراؤ اور سیاسی پارٹیوں کی غیر معذب لڑائی نے قوم کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیا جمہوریت میں اختلاف رائے ہر پارٹی کا حق ہے اور جمہوری اختلاف جمہوریت کا حسن ہے مگر اس اختلاف کا دائرہ اگر کسی کی ذات یا فیملی تک لے جایا جائے تو اس کے نتائج کسی حادثہ کا سبب بن سکتے ہیں آج اگر ہم نظام عدل ،قانون کی بالا دستی کو یقینی بنا کر انصاف کے عمل کو شفاف طریقے سے نچلی سطح تک منتقل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں توپھر ہمارا ملک مکمل امن کا گہوارہ بن جائے گا اور تمام معاشی اور معاشرتی برائیاں اپنی موت آپ مر جائیں گی (پاکستان زندہ باد) ۔