تحریر ۔۔۔ ڈاکٹر بی اے خرم
روک سکتے ہو تو روک لو،مجھے کیوں نکالا۔؟ ،ججز بغض سے بھرے بیٹھے ہیں ،ہمارے خلاف جھوٹے مقدمات بنائے گئے ،کیس پاناما کا تھا فیصلہ اقامہ پہ سنا دیا گیا ،جب ہمارے خلاف کچھ نہیں ملا تو ضمنی ریفرنس بنا دیئے گئے ،اگر ہمارے خلاف پہلے کچھ نہیں ملا تو انشاء اللہ ضمنی ریفرنس سے بھی کچھ نہیں ملے گا،نواز شریف کا بیانیہ ہر دلعزیز اور مقبول عام ہو رہا ہے ،اب ہم پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں ،ہمیں ڈرایا نہیں جا سکتایہ وہ بیانات ہیں جو مسلم لیگ ’’ن ‘‘جو۔۔۔ اب ’’ش‘‘میں تبدیل ہو چکی ہے کی اعلی قیادت بالخصوص سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف ،ان کی صاحبزادی مریم نوازاور سلطنت عباسیہ کے چند وزراء ایک تسلسل کے ساتھ کہتے رہے ہیں نااہلی کے فیصلہ کے بعد شہر اقتدار سے لاہور تک کا سفر جو بذریعہ جی ٹی روڈ کیا گیا تھا اس وقت سے لے کر اب تک مسلم لیگ ن ش کی قیادت مسلسل اداروں سے ٹکراؤ اور تصادم کا راستہ اختیار کئے ہو ئی تھی پارٹی کے مخلص رہنماؤں بالخصوص وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف اور سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار مسلسل باپ بیٹی کو راہ راست میں لانے کے لئے مشورے دیتے رہے ان مخلص مشوروں کے نتیجہ میں برادرحقیقی کے سوا تمام مسلم رہنماؤں کو پیچھے دھکیل دیا گیا پارٹی کے مشاورتی اجلاسوں میں چوہدری نثار کو بلانا چھوڑ دیا گیا اداروں سے محاذ آرائی بڑھتی گئی اعلی قیادت اپنے مقدمات کا دفاع کرنے کی بجائے ٹکراؤ،تصادم اور میں نہ مانوں کی پالیسی پہ گامزن رہی وقت گزرتا گیا حالات کشیدہ ہوتے گئے بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے گزر گیا گھیرا تنگ دکھائی دیا تو احتساب عدالت میں پیشی کے بعد’’بڑے میاں ‘‘نے اداروں سے مذاکرات کا ہلکا سا اشارہ دیا پھر ’’چھوٹے میاں ‘‘ نے سیاستدان،جرنیل اور ججز کو مل کر ’’نیا پاکستان‘‘بنانے کا مشورہ دے ڈالا حالانکہ کپتان ایک عرصہ سے ’’نیاپاکستان ‘‘ بنانے کے وعدے بعید کرتے آ رہے ہیں (نئے پاکستان کی بجائے اگر سب مل کر پرانے پاکستان کی سلامتی کے لئے کام کریں تو زیادہ بہتر ہے )چھوٹے بڑے میاں کی جانب سے جو بیانات سامنے آئے اس سے ایک واضح پیغام سامنے آیا ،بعد ازاں ایک نئے این آر او کی بازگشت بھی سنائی دی مل جل کر چلنے ،نئے پاکستان اور این آراو کی رپورٹس کی سیاہی ابھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ سلطنت عباسہ کے سربراہ شاہد خاقان عباسی اور چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کے درمیاں ہونے والی ملاقات نے سیاست میں ایک تلاطم پیدا کر دیا وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی اور چیف جسٹس ثاقب نثار کے درمیان اہم ملاقات ہوئی ہے جس میں اہم امور پر بات چیت کی گئی دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات تقریباً دو گھنٹے تک جاری رہی ایک گھنٹی 55منٹ تک جاری رہنے والی اہم ملاقات میں ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال سمیت دیگر اہم امور پر تبادلہ خیالات کیا گیادونوں اہم شخصیات کے درمیان یہ پہلی ملاقات ہے چیف جسٹس نے وزیرِ اعظم کی چائے اور بسکٹ کے ساتھ تواضع بھی کی ملاقات کے بعد چیف جسٹس ثاقب نثار وزیرِ اعظم کو گاڑی تک چھوڑنے آئے اور تصویر بھی بنوائی اس سے قبل وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی جب بغیر پروٹوکول سپریم کورٹ پہنچے جہاں چیف جسٹس ثاقب نثار نے ان کا استقبال کیایہ ملاقات سپریم کورٹ بلڈنگ میں چیف جسٹس کے چیمبر میں ہوئی۔
واضح رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب پاکستان کے کسی بھی وزیراعظم نے عدالت عظمی کے سربراہ سے ملاقات کی ہے اس سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے 2011 میں سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری ملاقات کی تھی جس کے بعد جسٹس خلیل الرحمان رمدے کو عدالت میں بطور ایڈ ہاک جج ملازمت میں توسیع کی گئی تھی اس سے پہلے 2007 میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز سے ملاقات کی تھی اس ملاقات میں شوکت عزیز نے چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس دیا تھا اوران سے استعفی طلب کیا تھا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق وزیراعظم اور چیف جسٹس کے درمیان ملاقات انتہائی خوشگوار ماحول میں ہوئی اور یہ ملاقات وزیراعظم کی خواہش پر ہوئی جس کی درخواست اٹارنی جنرل کے ذریعے کی گئی ملاقات میں وزیراعظم نے عدالتی نظام کی مضبوطی کیلئے تعاون فراہم کرنے کی دلچسپی کا اظہار کیا اور کہا کہ فوری اور سستے انصاف کی فراہمی کیلئے عدلیہ کو تمام وسائل فراہم کیے جائیں گے۔ وزیراعظم نے ٹیکس وصولی میں زیرالتوامقدمات پردرپیش مشکلات سے آ گاہ کیا اور ٹیکس وصولی میں زیرالتوامقدمات پردرپیش مشکلات سے آگاہ کیا صحت،مفت تعلیم،ہسپتالوں کی بہتری کیلئے اقدامات کی یقین دہانی بھی کروائی مشترکہ مفادات کونسل کی واٹرپالیسی سے بھی آگاہ کیا صاف پانی ، تعلیمی نظام، سیوریج اورماحولیاتی تحفظ کیلئے اقدامات کی بھی یقین دہانی کروائی۔چیف جسٹس آف پاکستان نے اس ملاقات میں کہا کہ ٹیکس سے متعلق امورکوفاسٹ ٹریک پردیکھاجائیگا ، جبکہ ٹیکس اورایف بی آرسے متعلق زیرالتوامقدمات کاجائزہ لیں گے اورعدلیہ اپنی آئینی ذمہ داری بلاخوف وخطراداکرے گی۔
سلطنت عباسیہ اور اعلی عدلیہ کے سربراہوں کے درمیان ہونے والی ملاقات سے ایک بات تو بالکل واضح ہوگئی کہ نواز شریف کا بیانیہ ، اداروں سے ٹکراؤ اور محاذ آرائی کی پالیسی غلط تھی چھوٹے میاں ،چوہدری نثار اور ان کے ہم خیال افراد کا بیانیہ درست ثابت ہوادوبڑوں کے درمیان ہونے والی ملاقات کوئی اچنبے کی بات نہیں لیکن اس ملاقات کی ٹائمنگ غلط تھی یہ ملاقات اس وقت ہوئی جب شریف خاندان کے خلاف چلنے والے مقدمات آخری مراحل میں داخل ہو چکے ہیں ان حالات میں ہونے والی ملاقات کا تاثر حکمران جماعت اور شریف برادارن کے حق میں اچھا نہیں جائے گا شریف خاندان کو کوئی نیا این آر او ملتا ہے یا نہیں اس ملاقات سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آگئی ہے کہ ججزکو چابی کا کھلونا کہنے والے شریف خاندان ،سلطنت عباسیہ اور درباریوں نے اعلی عدلیہ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے ،اپنے ہی بیانیہ کو غلط ثابت کردیا ۔