دس بارہ سال قبل تک آزاد کشمیر کے عوام پاکستان کے روزنامہ اخبارات کے ڈاک ایڈیشن کی خبریں پڑھنے پر مجبور تھے۔یہ اخبارات آزاد کشمیر کے لئے محدود تعداد میں اخبار شائع کرتے،یوں آزاد کشمیر کی خبریں صرف آزاد کشمیر کے عوام ہی پڑھتے ،پاکستانی اخبارات کے لوکل ایڈیشن میں آزاد کشمیر ،ریاست کی خبروں کو جگہ نہیں دی جاتی۔ پاکستانی اخبارات اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے تحت متنازعہ قرار دی گئی ریاست جموں و کشمیر کے عوام کی خواہشات اور جذبات کی ترجمانی کرنے سے یکسر قاصرچلے آ رہے ہیں۔تحریک آزادی کشمیر،کشمیر کازکے علاوہ آزاد کشمیر و گلگت بلتستان کے حقوق،حیثیت و دیگر اہم امور سے متعلق بھی پاکستانی اخبارات کی نظر اندازی مسلسل دیکھنے میں آتی ہے ۔اسی صورتحال میں رواں اکیسویں صدی کے پہلے عشرے سے آزاد کشمیر سے روزنامہ اخبارات کی اشاعت شروع ہوئی۔یکے بعد دیگرے کئی روزنامہ اخبارات آزاد کشمیر کے مختلف علاقوں سے شائع ہونے شروع ہوئے۔ان میں اکثریت ایسے اخبارات کی ہے جن کا دائرہ کار اپنے اپنے اضلاع تک ہی محدود ہے۔تاہم چند اخبارات ایسے بھی ہیں جو آزاد کشمیر کے تمام اضلاع کے علاوہ پاکستان کے مختلف شہروں میں بھی پڑھے جاتے ہیں۔
آزاد کشمیر میں ریاستی صحافت کی ابتداء اور ترویج کی بات کی جائے تو ہفت روزہ اخبارات کانام آتا ہے ۔ان میں سے کئی اخبارات و جرائد کا شاندار صحافتی کردار ہماری تاریخ کا ایک اہم حصہ اور مشعل راہ ہے۔ آزاد کشمیر کے متعلق اب عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ یہ اپنے قیام کے مقاصد کو نظر انداز کرتے ہوئے مقامی سطح کے امور ،مفادات اور جھگڑوں میں محدود ہو کر مقامی نوعیت کے اختیارات سے بھی محروم ہو چکا ہے۔اس انحطاط پذیری کا نہ تو کسی کو کوئی احساس ہے نہ اس کے مضرمات کا ادراک۔سیاستدان دن بدن زیادہ سے زیادہ پابندیوں میں محدود و مقید نظر آتے ہیں۔اس صورتحال کے تناظر میں آزاد کشمیر کے ریاستی پریس کی اہمیت و افادیت میں کئی گنا اضافہ ہوتا ہے کہ وہ ریاستی حقوق اورقومی و عوامی مفادات کے پاسداری کا فریضہ ادا کریں۔
میرا آج کا موضوع آزاد کشمیر کا معروف ومقبول روزنامہ اخبار ’’ جموں و کشمیر‘‘ ہے۔ روزنامہ ’’ جموں و کشمیر‘‘صحافت کے نہایت کٹھن،خار دار ،صبر آزما راستے کے سات سال مکمل کر کے آٹھویں سال میں داخل ہو رہا ہے۔’’ جموں و کشمیر‘‘ کے پبلشر و چیف ایڈیٹر عامر محبوب میرے مخلص دوست ہیں اور دوستوں کی جائز تعریف کرنے میں کبھی مصلحت سے کام نہیں لیا لیکن میری ہمیشہ یہ کوشش رہتی ہے کہ تحریر میں صحافت و قلم کاری کی اعلی اقدار کی پاسداری کی جائے،حقیقت،انصاف اور عوامی مفاد کو مدنظر رکھا جائے۔
عامر محبوب نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز اسلام آباد کے روزنامہ اخبار سے کیااور چند سال مختلف اخبارات سے منسلک رہے۔اعلی صحافتی کارکردگی کی بنیاد پرتھوڑے ہی عرصے میں ان کا نام نمایاں ہوا۔عامر محبوب نے17جنوری2005ء کو روزنامہ ’’ جموں وکشمیر‘‘کی اشاعت شروع کی اور سات سال کے اس مختصر عرصے میں’’ جموں و کشمیر ‘‘ کوآزاد کشمیر کا بڑا اخبار بنا دیا۔میں ایک سینئر صحافی کی اس بات سے متفق ہوں کہ کوئی اخبار اپنی تعداد و وسائل کی بنیاد پر بڑا نہیں ہوتا ،اخبار کا بڑا پن اس کے معیار اشاعت پر منحصر ہوتا ہے۔بلاشبہ روزنامہ ’’ جموں و کشمیر‘‘ اپنی سرکولیشن،اپنے سیٹ اپ اور معیار کے حوالے سے بھی آزاد کشمیر کے اخبارات میں نمایاں ہے۔یوں تو عامر محبوب کو ’’ جموں و کشمیر‘‘ میں کئی صحافی دوستوں کا ساتھ حاصل رہا لیکن اس روزنامہ کی کامیابی کا ’’ کریڈٹ‘‘ عامر محبوب کو ہی جاتا ہے۔ایک روزنامہ اخبار کی کامیابی کا انحصار اچھے،قابل صحافیوں پہ ہوتا ہے تاہم صحافتی تجربے و اپروچ کے ساتھ ایک اچھے منتظم کے بغیر نتیجہ موثر نہیں ہو سکتا۔عامر محبوب نے اپنے صحافتی تجربے،تعلقات ،قابلیت اور محنت کے ساتھ ساتھ ایک چھے منتظم کے طور پر بھی ’’ جموں و کشمیر‘‘ کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔عامر محبوب کا ذکر بار بار اس لئے آ جاتا ہے کہ روزنامہ ’’ جموں و کشمیر‘‘ کے پیچھے عامر محبوب کی ذات اور ان کی محنت ہے جس کی وجہ سے یہ اخبار آزاد کشمیر کے ریاستی اخبارات میں سب سے مضبوط اور مستحکم حیثیت کا حامل ہے۔
عامر محبوب صرف روزنامہ جموں و کشمیر‘‘ کی کامیابی تک ہی محدود نہیں بلکہ ریاستی صحافت کیلئے بھی ان کی کوششیں لائق تحسین ہیں۔عامر محبوب 2012ء میں ریاستی اخبارات و جرائد کی تنظیم ’’ آل کشمیر نیوز پیپرز سوسائٹی‘‘(AKNS) کے متفقہ طور پر صدر منتخب ہوئے اور محض ڈیڑھ سال کے عرصے میں ’’اے کے این ایس‘‘ آزاد کشمیر کی سب سے بڑی اور موثر صحافتی تنظیم کے طور پر سامنے آئی ہے۔عامر محبوب کی دلیرانہ سوچ اور ’’اپروچ ‘‘ اور سوسائٹی کے ارکان کے اتحاد کی وجہ سے اخبارات و جرائد کو آزاد کشمیر حکومت سے اشتہارات کی مد میں سالہا سال سے واجب الادا بلات کی ادائیگیاں ممکن ہو سکیں۔مظفر آباد میں ’’ اے کے این ایس‘‘ کا دفتر قائم کیا گیا،سوسائٹی کے ہر رکن کے لئے دس لاکھ روپے کی بیمہ پالیسی کرائی، انتقال کر جانے والے رکن کے لئے سوسائٹی کی طرف سے پچاس ہزار کی مالی معاونت اور دیگر کئی اہم اقدامات کئے۔
ریاست جموں و کشمیر کی ممتاز شخصیت خواجہ عبدالصمد وانی وفات سے دو ماہ قبل مظفر آباد میں ائر پورٹ روٖڈ سے گزر رہے تھے کہ اچانک انہوں نے گاڑی رکوا لی اور گاڑی سے نیچے اتر کر ارد گرد دیکھتے ہوئے نہایت خوش نظر آنے لگے۔والدہ سناتی ہیں کہ انہوں نے وانی صاحب کو گاڑی میں بیٹھے کو کہا لیکن والد صاحب نے اصرار کر تے ہوئے انہیں گاڑی سے باہر بلایا اور کہا کہ 1950ء میں یہاں صرف دو چار کچے گھر تھے، آج دیکھو ہر طرف عالیشان گھر بنے ہوئے ہیں۔اس پر والدہ نے کہا لیکن آپ تو اس طرح خوش ہو رہے ہیں کہ جیسے یہ آپ کے اپنے گھر ہوں۔اس پر والد صاحب نے جواب دیا کہ ’’ یہ میرے وطن کے گھر ہیں تو میرے اپنے ہی گھر ہوئے‘‘۔اسی طرح آج میں روزنامہ جموں و کشمیر کی ترقی اور کامیابی دیکھتے ہوئے خوشی محسوس کرتاہوں کہ روزنامہ ’’ جموں و کشمیر‘‘ کی صورت میری ریاست کشمیر کی صحافت ترقی کر رہی ہے،مضبوط ہو رہی ہے،اپنے فرض کی ادائیگی کی طرف گامزن ہے۔عزیز دوست عامر محبوب کی مزید ترقی کے لئے دعاگو ہوں کیونکہ مجھے یقین ہے کہ اب عامر محبوب صحافت کی جدو جہد کے علاوہ کوئی دوسرا کام نہیں کر سکتا۔