بچپن کی کہانی تھی
ہم نے جو سنائی تھی
روتی ہوئی پلکوں سے
بہتے ہوئے اشکوں سے
تم بھول گئے جاناں
تم بھوول گئے جاناں
معصوم سا اک چہرہ
وحشت کا کڑا پہرہ
ہر ظلم سہا ہم نے
کچھ بھی نہ کہا ہم نے
تم بھول گئے جاناں
تم بھول گئے جاناں
اب حال ہو ایسا
کچھ بھی نہ رہا ویسا
ہے یار خدا اپنا
دلدار خدا اپنا
اب فکر نہیں کوئی
تھا اہل زمیں کوئی
صد شکر ٹلی آفت
دل میں ہے بسی چاہت
بچپن کی کہانی کو
اس غم کی نشانی کو
ہم بھول گئے جاناں
ہم بھول گئے جاناں.
محمد اشفاق مشفق