میر افسرامان
آج کل نواز شریف اللہ صاحب کی پکڑ میں آئے ہوئے ہیں۔ کہتے ہیں نا! کہ اللہ جس کسی کے عروج کے دن ختم کرنے پر آتا ہے تو اس سے ایسے اقدامات کرواتا ہے کہ وہ خود ہی اپنے جال میں پھنس جاتا ہے۔کچھ ایسا ہی نا اہل نواز شریف کے ساتھ ہوا ہے۔صحافیوں کی تنظیم نے آف شور کمپنیوں کو میڈیا میں عام کیا۔آف شور کمپنیوں میں رقم رکھنے سے سرمایادار اپنے آپ کو ٹیکس ادا کرنے سے بچاتے ہیں۔دنیا کے دوسرے لوگوں کی طرح نواز شریف کے خاندان کا نام بھی آف شورکمپنیوں میں آیا۔چور کی داڑھی میں تنکا کے مصداق نا اہل نواز شریف بھی پریشان نظر آئے۔پہلے دو دفعہ میڈیا خصوصاً الیکٹرونک میڈیا پر تقریر کی۔اس تقریر کے دوران ان کے چہرے کے تاثرات سے صاف ظاہر ہو رہاتھا کہ دال میں کچھ ضرور کالا ہے کہ نواز شریف دو بار اپنی صفائی پیش کرنے کے الیکٹرونک میڈیا پر آئے۔ جب اپوزیشن نے اس بات کو زور سے اُٹھایا تو باقاہدہ پارلیمنٹ کے اندر بھی صفائی پیش کی۔نواز شریف نے پارلیمنٹ میں بغیر ریکارڈ اور ثبوت کے تقریر کی۔جناب اسپیکر کہہ کرتاریخی جملے کہے’’کہ یہ ہیں وہ ذرائع کہ جس کے ذریعے میرے خاندان نے دولت کمائی‘‘ساتھ ہی ساتھ عدلیہ کو خود خط لکھاکہ وہ یوڈیشنل کمیشن قائم کر کے اس معاملہ کی تحقیق کرے۔ تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کاپانی ہو جائے۔عدلیہ نے واپس خط لکھا کہ پاکستان کے پرانے قانون کے مطابق اگر عدلیہ نے اس کیس کو سنا تو اس میں سالوں لگ جائیں گے اور فیصلہ پھر بھی نہیں ہو سکے گا۔اس لیے پارلیمنٹ نیا قانون بنائے تاکہ عدلیہ اس قانون کے تحت فیصلہ دے سکے۔ اپوزیشن کی انتہائی کوششوں کے باوجود، نو ن لیگ کی دو تہائی اکثریت رکھنے والی پارلیمنٹ نیا قانون نہیں بنا سکی۔ اپوزیشن اور حکومتی ممبران نے ایک دوسرے پرالزام ترشی کی۔
جب پارلیمنٹ میں فیصلہ نہ ہو سکا تو جماعت اسلامی جو ملک میں پہلے سے ہی کرپشن کے خلاف مہم چلائے ہوئے تھی نے سپریم کورٹ میں نواز شریف کی ممکنہ کرپشن کے خلاف درخواست داہر کر دی۔ اس کے بعد عوامی مسلم لیگ اور تحریک انصاف نے بھی اپنی اپنی درخواستیں سپریم کورٹ میں داخل کیں۔سپریم کورٹ نے چاروں فریقوں سے کہاکہ آپ سپریم کورٹ کو لکھ کر دیں کہ جو بھی فیصلہ سپریم کورٹ کرے گی سب کو من و عن قبول ہو گا۔ سب فریقوں نے لکھ کر دیا کہ منظور ہو گا۔سپریم کورٹ نے عدلیہ کے پانچ معزز ججوں پر مشتمل بینچ بنایا۔عدلیہ کے پہلے فیصلہ میں پانچ ججوں میں سے دو ججوں نے فیصلہ لکھا کہ نواز شریف تا حیات نا اہل ہیں ۔تین ججوں نے کہا کہ ساٹھ دن مذید تحقیق کر لی جائے۔ اس پر نواز شریف نے پاکستان بھر میں مٹھائیاں تقسیم کیں اور کہا کہ دیکھو! تین ججوں نے نا اہل قرار نہیں دیا ۔صرف دو ججوں نے نا اہل قرار دیا ہے۔ ارے بھائی تین ججوں نے آپ کوکونسا اہل قرار دیا ہے۔ صرف اتنا ہی کہا ہے نا کہ ساٹھ دن مذید تحقیق کر لی جائے۔ عدلیہ نے اپنے فیصلہ کے مطابق ایک جائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم( جے آئی ٹی) تشکیل دی۔ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی میں ملک میں کرپشن پکڑنے والے سارے اداروں کے ممبران کو شامل کیا اور حکم دیا کہ ساٹھ دن کے اندر تحقیق کر کے پیش کی جائے۔ جے آئی ٹی نے دن رات محنت کر کے ساٹھ دن کے اندر کرپشن کا کھوج لگایا اور وقت پر رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کر دی۔سپریم کورٹ کے پانچ کے پانچ معزز ججوں نے جے آئی ٹی کی تحقیق کی بنیاد پر نواز شریف کو نا اہل قرار دے دیا۔نیب کو بھی حکم دیا کہ جے آئی ٹی تحقیق کو سامنے رکھتے ہوئے کرپشن کا کیس سنے۔اب نیب کے طرف سے فیصلہ آنے کے قریب ہے۔
کیس کی کاروائی کے دوران اور آج تک نواز شریف، ان کی بیٹی مریم نواز، ان کے داماد کیپٹن صفدر اور وزیروں نے عدلیہ اور فوج پر حملے کیے اور کر رہے ہیں۔ نواز شریف نے عدلیہ اور فوج کو کٹ پتلی کہہ کر کہا اب کٹپتلیوں کا کھیل نہیں چلنے دیا جائے۔ ملک میں مارشل لاء لگنے والا ہے۔ جمہوریت کو ختم کیا جا رہا ہے۔ فوج پارلیمنٹ کوگھر بھیجنے والی ہے۔۷۰ سال یہ سیاستدانوں کو کام نہیں کرنے دیا۔ بیس کروڑ لوگوں کے ووٹوں کی کوئی قدر نہیں۔ ملک کے منتخب وزیر اعظم کو گھر بھیج دیا گیا۔ مجھے کیوں نکالا کی گرادن پڑھنی شروع کی۔ حتہ کہ ملک کے دو ٹکڑے کرنے والے غدار مجیب کو بھی محب وطن قرار دے دیا۔ شہروں شہر جلسے کر کے پاکستان کی عوام کوبغاوت پر اُکسایا۔ کہا کہ ووٹ کو عزت دو۔ہاں ووٹ کو عزت دو مگرووٹ دینے والوں کے خزانے کو لوٹنے والے کو گھر بھیج دے دو۔
ارے بھائی !آپ آئین پاکستان کی دفعہ ۶۲۔۶۳ پر امین و صادق نہیں رہے۔ اس لیے ملک کی سپریم کورٹ نے نا اہل قرار دے دیا۔ آپ نے خود عدالت سے کیس سننے کا کہا۔ آپ نے لکھ کر دیا کہ فیصلہ من وعن قبول کیا جائے گا۔مگر آپ کے خلاف فیصلہ آنے پر آپ نے ملک کو داؤ پر لگا دینے سے بھی گریز نہیں کیا۔ آپ کو کروڑ لوگوں نے اس لیے ووٹ نہیں دیا کہ آپ ان کے خزانے سے پیسے لوٹ کر لندن میں فلیٹ خریدیں۔ ایک اتفاق فوئنڈری سے ۱۲؍ ملیں بنائیں۔اس کے علاوہ یہی سپریم کورٹ پیپلز پارٹی کے دو
وزیروں اعظموں کا نا اہل قرار دے چکی ہے۔
آپ کے بعد تحریک انصاف کے سیکر ٹیری جرنل کو امین و صادق نہ ہونے پر نا اہل قرار دے چکی ہے۔ آپ کے بھائی شہبازشریف وزیر اعلیٰ پنجاب کے خلاف درج مقدمے کو خارج کرچکی ہے۔اس سے پہلے طیارہ ہائی جیکنگ میں آپ کو بری کر چکی ہے۔ میٹھا میٹھا ہپ اور کڑوا کڑواتھو والی بات ہے ۔ آپ کا عدلیہ اور فوج کے خلاف سارا زہر دم توڑ گیا ہے۔پنجاب سے درجنوں ممبران آپ کا ساتھ چھوڑ گئے ہیں۔آپ کے بیس سے زاہد لوگوں نے سینیٹ کے الیکشن میں آپ کے خلاف ووٹ دیا۔اب یہ لہر چل پڑی ہے۔ فوج نے بھی مارشل لگایا نہ پارلیمنٹ توڑی ۔جمہوریت چلتی رہی اور چل رہی ہے۔آپ کی پارٹی کا وزیر اعظم جناب شاید خاقان عباسی صاحب کو چن لیا گیا۔سینیٹ کے الیکشن وقت پر ہوگئے۔ پسماندہ صوبے کا صادق سنجرانی صاحب سینیٹ کا چیئر میں منتخب کر لیا گیا۔ عام انتخابات بھی وقت پر ہوجائیں گے۔ ہاں اب کسی کی کرپشن نہیں چلے گی۔غریب عوام کا لوٹا ہوا پیسا واپس عوام کے خزانے میں جمع ہونا شروع ہو گا۔انشاء اللہ۔
پہلے آپ کی دو تہائی اکژیت والی پارلیمنٹ نے دنیا کا انوکھابل پاس کیا۔ ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے طرف سے آپ کو نا اہل قرار دینے والے فیصلہ کے خلاف آپ کو اہل قرار دے دیا۔ ان کالے قانون کو ملک اعلیٰ عدلیہ نے منسوخ کر دیا گیا۔اب میڈیا پر کئی روز یہ بات زیر بعث رہی کہ نا اہل وزیر اعظم نواز شریف نے اپنی پارٹی کے سرکردہ لیڈروں کے ساتھ ملاقاتوں میں اس بات پر زور دیا کہ اُن کے خاندان کے خلاف نیب کے مقدمات کا متوقع فیصلہ آنے وا لا ہے۔ لہٰذا نواز شریف کے خلاف فیصلہ آنے سے پہلے نون لیگ کی دو تہائی والی پارلیمنٹ نیب کا قانون ہی ختم کر دے۔ ایسا قانون پاس کیا جائے جس عدلیہ اور فوج کے بھی ہاتھ باندھ دیے جائیں۔ نون لیگ کے کچھ لوگوں مشورہ دیا کہ جیسے پہلے نواز شریف کو نا اہل سے اہل قرار دینے والا بدنام زمانہ قانون کو عدلیہ نے منسوخ کر دیا ۔نیب میں جاری مقدمات کے دوران اگر ایسا قانون پاس کیا گیا تو اس کو بھی عدلیہ منسوخ کر دے گی۔ نجی ٹی وی ٹاک شوز کے مطابق سنا گیا ہے کہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا والی بات، نواز شریف نے لندن میں اپنی پارٹی کے لوگوں سے سختی سے کہہ دیا ہے کہ ایسے قانون کی مخالفت کرنے والوں کو آنے والے الیکشن میں ٹکٹ نہیں دیے جائیں گے۔ اس لیے عدلیہ،فوج کے ہا تھ باندھنے اورنیب کو ختم کرنے کا قانون ضرور بننا چاہیے۔ دیکھئیے آنے والے دنوں میں ہونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔