تحریر۔۔۔جنید علی گوندل
کافی عرصہ بعد لکھنا شروع کیا اور سوچا کہ کیا لکھوں ۔۔تو ذہن میں آیا ہے کہ نجی /سرکاری اسکولوں میں پرائمر ی اور ایلیمنٹری پاس اساتذہ کے حوالے سے کچھ لکھا جائے ۔وطن عزیز یوں تو بے شمار مسائل سے گھرا ہوا ہے ،جن میں دہشت گردی ‘ٹارگٹ کلنگ ،لوٹ مار، بے روزگاری ، صحت و صفائی اور لوڈشیڈنگ اہم ایشو زہے ۔مگر ان سب کے علاوہ ایک اور بڑا مسئلہ نظام تعلیم کی خرابی اور اس کے نئی نسل پر اثرات کا ہے ۔ بدقسمتی سے وطن عزیر تعلیم جیسے بنیادی اور اہم شعبہ میں ناقدری ، عدم توجہی اور بدعنوانی کی آمیزش کے باعث تباہی سے دوچار ہے ۔دنیا میں ترقی یافتہ ممالک کی کامیابی میں کئی ایک راز پنہاں ہیں ۔ ان میں میں ایک تعلیم بھی ہے ۔ یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جن قوموں نے تعلیم کو اپنے منشور اور اپنی ترجیحات میں شامل کیا وہ آ ج ہر اعتبار سے قابل احترام اور کامیاب قوم سمجھی جاتی ہے ۔یہ قومیں معاشرہ میں اپنا بلند مقام رکھتی ہیں۔انگلینڈ ہو یا امریکہ ‘برطانیہ ہو یاافریقہ ‘بھارت ہو یا چین‘فرانس ہو یا جرمنی ‘تھائی لینڈ ہو یا جاپان ان تمام ممالک اور اس میں بسنے والی قومیں تعلیم کی بنیاد پر ترقی کی منازل طے کرنے میں کامیاب رہی ہیں اور ان قوموں اور ممالک کی ترقی کو آج دنیا میں ایک مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔
بدقسمتی سے وطن عزیز پاکستان دنیا کے چند ایک ایسے ممالک میں شمار رکھتا ہے جہاں حکومتی دعوؤں کے بر عکس تعلیم کی شرح انتہائی کم ہونے کے ساتھ ساتھ غیر پیشہ ور اساتذہ کا ہونا بھی باعث سرمندگی اور باعث فکر مند بھی ۔صوبائی حکومت ہو یا وفاقی حکومت دونوں ہی حکومتوں کی جانب سے سالانہ بجٹ میں تعلیم کے لئے اربوں روپے کا بجٹ مختص کیا جاتا ہے۔ لیکن اس قدرے بڑے بجٹ کو عملی شکل میں محض 20سے 25فیصد تعلیم پر خرچ کیا جاتا ہے ۔پاکستان میں تعلیمی معیار کی زبوں حالی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔ لیکن اس شعبہ سے وابستہ نجی اسکول ملکان نے پیسہ کمانے کی دھن میں مصروف اپنے اسکولوں میں غیر پیشہ ور اساتذہ کی تقرری کرنے میں مگن ہے ۔ کئی اسکول تو ایسے ہے جہاں اساتذہ میڑک بھی پاس کرنے سے پہلے ہی اسی اسکول میں بچوں کو پڑھانے میں مصروف ہیں۔نجی اسکولوں کے ساتھ ساتھ سرکاری اداروں میں بھی گھوسٹ ملازمین کی بھرمار ہے ۔ لیکن غیر پیشہ ور اساتذہ کا تقرری پر اعلیٰ احکام اور متعلقہ اداروں توجہ دینے سے قاصر ہے جو کہ باعث حیرانگی ہے ۔ اعلیٰ احکام اور متعلقہ اداروں کی جانب سے اس مسئلہ پر نوٹس کیوں نہیں لیا جارہا ہے اس کے بارے میں تو متعلقہ ادارے ہیں بتا سکتے ہیں لیکن ہم آپ کو کچھ اعداد شمار سے آگاہ کررہے ہیں جس کے بارے میں شاہد آپ نہ جانتے ہوں ۔سندھ جو کہ قدرتی وسائل اور دیگر خوبیوں کے باعث پاکستان کا معیشت کے اعتبار سے مضبوط صوبہ قرار دیا جاتا ہے ۔ کراچی جیسے شہر کی موجودگی کے باوجود سندھ کا تعلیمی معیار پنجاب کے مقابلے میں کم تر ہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے صوبہ سندھ میں اس وقت ایک اندازے کے مطابق 49000 اسکول قائم ہے ۔جن میں پرائمری تا میڑک تک تعلیم دی جاتی ہے۔ان اسکولوں میں زیادہ تر کی عمارتیں 3سے 4کمروں اور زیادہ سے زیادہ10سے 15کمروں پر مشتمل ہیں ۔ان اسکولوں میں سیاسی بھرتیوں پر شامل اور کچھ سفارشی کئے گئے ٹیچرز اور کچھ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے اساتذہ بھی ہے ۔مگر افسوس اس بات کا ہے کہ یہ اساتذہ صرف نام کے ہیں ۔ایک اندازے کے مطابق ان 49000اسکول میں تقریباً10000کے لگ بھگ اسکول گھوسٹ ہے ۔جس میں زیادہ تر اسکول بھینسوں کے باڑے‘زمینداروں اور بااثر افراد کی بیٹھک یا سیاسی جماعتوں کے دفاترمیں تبدیل ہوچکے ہیں ۔ان میں تقریباً کئی اسکول تو مٹی کی دیواروں کے بنے ہیں تو متعدد اسکول چھتیں نہ ہونے کے باعث بند ہیں۔گھوسٹ اسکول اور بدحالی کا شکار اسکول سرکاری ریکارڈ میں زندہ ہیں اور ان کیلئے باقاعدہ سالانہ فنڈ جاری کیا جاتا ہے اور یہ تمام تر فنڈ سرکاری افسران کی جیبوں میں جاتا ہے ۔
یہاں ایک بات قابل ذکر ہے ان 10000اسکول میں کلاسز نہ ہونے پر بھی ان اسکول کے اساتذہ ماہانہ تنخواہ وقت کی پابندی کے ساتھ وصول کرتے ہیں۔تمام سرکاری اسکولوں میں پرائمری اساتذہ سے لیکر میڑک کے اساتذہ کی ماہانہ تنخواہ 25000سے لیکر 80000تک ہے ۔مگر یہ اساتذہ صبح اسکول میں حاضری لگانے کے بعد واپس اپنے اپنے کاروبار مصروف ہوجاتے ہیں۔یہاں لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ان اساتذہ کے جانے کے بعد اسکول میں آئے ہوئے طالبات کا کیا ہوتا ہے ۔یہ صورتحال ارباب اختیار اور ہر ذی شعور طبقے کی معلومات اور توجہ طلبی کیلئے رقم کررہے ہیں۔ان طالب علموں میں بہت سے طالب علم کلاس میں پڑھنے کو ترجیع دیتے ہیں جبکہ بہت سے کھیل کھود اور اسکول سے باہر ہوٹلوں‘یا اسکول سے باہر آوارہ گردی کرکے اپنا اسکول کا ٹائم پورا کرتے ہیں۔گھر سے والدین کی طرف تعلیم کے حصول کیلئے بھیجے گئے یہ طلبہ جب اسکول میں اسمبلی کے بعد کلاس میں آتے ہیں تو ان کو بتایا جاتا ہے کہ ان کا آج فلاں استاد چھٹی پر ہے ۔اس کی وجہ سے تعلیم کے حصول کیلئے سرگرم طلبہ و طالبات کا جنون ٹھنڈ ا ہونا جاتا ہے اور یہ بھی اپنی تعلیم اور اسکول کے بجائے دوستوں کے ساتھ گھومنے کو ترجیع دیتے ہیں۔اساتذہ اپنے کاروبار کی خاطر اتنا بڑا سودا کرجاتے ہیں جن کی ان کوزار بھی پروا نہیں ۔وہ یہ نہیں سوچتے کہ اگر وہ عدم حاضر رہے تو تعلیم کے حصول کیلئے آئے طالب علموں کا کیا ہو گا کون پڑھائے گا ۔اور وہ کیسے پڑھے گے۔بس ان کا مقصد اپنی حاضری لگانا اور اسکول کے پٹے والے کو ماہانہ 2سے 3ہزار روپے دینا اور اپنی پورے مہنے کی حاضری پوری کرواناہے۔ان طلبہ کے والدین یہ آس لگائے کہ میرا بیٹا بڑا ہو کر پائیلٹ بنے گا ‘ڈاکٹر بنے گا ‘بڑا آدمی بنے گا ۔مگر حقیقت سے بے خبر یہ بیچارے والدین کیا جانے کہ ان کے بچے اساتذہ کی عدم توجیہ کی وجہ سے تعلیم کے بچائے کچھ اور ہی حاصل کررہے ہیں۔اپنا قیمتی وقت تعلیم کے بچائے گھومنے پھرنے میں مصروف ہیں۔یہاں یہ بات قابل امر ہے کہ اساتذہ کی عدم حاضری کا نوٹس لینے والا کوئی بھی سرکاری افسر یا مقامی اسکول کا رجسٹرار پوچھنے والا نہیں ہے ۔
ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً چھ کروڑ بچے اسکول نہیں جاتے اور ان میں سے 95 فیصد بچے انتہائی کم اور متوسط آمدن والے ممالک میں رہتے ہیں۔گزشتہ ایک دہائی میں اسکول نہ جانے والے بچوں کے اعتبار سے متوسط آمدن والے ملکوں کی شرح 12 سے 50 فیصد تک پہنچ گئی ہے اور اس فہرست میں پاکستان بھی شامل ہے۔بنیادی طور پر پاکستان اور نائیجیریا جیسے متوسط آمدن والے ممالک نے بچوں کی تعلیم سے متعلق کم پیش رفت کی ہے۔ جب کہ ان کے مقابلہ میں غریب ممالک نے بیرونی امداد سے فائدے حاصل کیے اور وہاں کی حکومتوں نے بہتر نتائج کے لیے فوری اقدامات اٹھائے جن میں اسکولوں میں داخلہ فیس کا خاتمہ اور کئی دیگر اہم فیصلے شامل تھے۔‘‘اقوام متحدہ کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بڑا مسئلہ تعلیمی معیار کا ہے جس کی وجہ سے کئی بچے بالخصوص غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والے بچے و بچیاں اسکول کی تعلیم مکمل نہیں کر پاتے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں نہ صرف سرکاری بلکہ نجی شعبے کے اسکولوں کا تدرسی معیار بھی پست ہے جہاں ایک تجزیے کے مطابق جماعت پنجم کے 36 فیصد طلبہ انگریزی زبان کا ایک عام سا جملہ نہیں پڑھ سکتے۔وزیر تعلیم کاکہنا تھا کہ اس مسئلے کا حل ایک قومی نصاب کے لاگو ہونے ہی سے ممکن ہے۔’’ابھی تو کوئی معیار ہی نہیں پرائیویٹ اسکولز جو چاہے نصاب پڑھا دیں۔ آئندہ سالوں میں ہر صوبے کی اپنی سمت ہو جائے گی۔ اگر وہ اچھا کام بھی کریں مگر سمت تو الگ الگ ہوگی جو کہ نقصان دہ ہو گی۔ نصاب سے متعلق کم از کم نقاط پر متفق ہونا لازمی ہے۔‘‘اگر ایسا ہو جائے تو ان کا کہنا تھا کہ ہر صوبے اور نجی اسکول کو نصاب میں کسی معروف شخصیت یا غیر ملکی زبان سے متعلق مضامین کی اجازت بھی دی جائے گی۔اس وقت پاکستان اپنی مجموعی پیداوار کا دو فیصد سے بھی کم تعلیم پر خرچ کرتا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر پاکستان آئندہ سالوں میں ٹیکس وصولی کی شرح کل پیداوار کے 14 فیصد تک لے جائے تو ہی ملک کے بچوں کی تعلیم کے لیے معقول مقدار میں مالی وسائل مہیا ہو سکیں گے۔ اس وقت یہ آٹھ اعشاریہ پانچ فیصد کے قریب ہے۔’’ہم جنگ کی حالت میں ہیں۔ ملک کی سلامتی بہت اہم ہے۔ امن و امان بہت اہم ہے۔ تعلیم کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں لیکن اگر یہ کہہ دیا جائے کہ سب کچھ چھوڑ کر صرف تعلیم (پر کام) کریں تو شاید وہ بھی صحیح نہیں ہوگا۔‘‘اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں اسکول نہ جانے والے بچوں میں 54 فیصد لڑکیاں ہیں اور ان میں سے نصف سے زائد عرب ممالک میں ہیں جہاں پر تین میں سے دو لڑکیاں کبھی اسکول ہی نہیں گئیں۔وطن عزیز اور بیرونی دنیا کے تعلیمی معیار کی ایک ہلکی سی جھلک آپ کے سامنے پیش کی جس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا تعلیم کے معیار میں کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہماری نوجوان نسل کے تعلیمی معیار کی قدریں کیا ہیں ۔ کہتے ہیں کہ اگر کسی بھی ملک کو تباہ کرنے کا سوچا جائے تو اسے ہتھیار یا گولہ بارود سے تباہ نہ کیا جائے بلکہ ان کا تعلیمی نظام تباہ کردیا جائے تو وہ قوم آئندہ سالوں میں خود ہی تباہی و بربادی کے دہانے پہنچ جائے گی ۔ یہی پاکستان قوم کے ساتھ ہورہا ہے ، ایک سازش کے تحت اس کے تعلیمی معیار کو تباہ و برباد کرکے آئندہ نسلوں کو مفلوج اور بے وقعت کیا جارہا ہے ۔ نظام تعلیم کی خرابی کی اس بڑی دلیل اور کیا ہوگی کہ چیف جسٹس آف پاکستان خود کہہ چکے ہیں کہ وطن عزیز میں تعلیمی معیار تباہ ہوچکا ہے ۔لہذا اگر ہمیں اپنی آئندہ نسلوں اور پاکستان کو محفوظ بنانا ہے تو حکومتی سطح سے نچلی سطح تک تعلیمی معیار کے بہتری کے ہر پہلو پر توجہ دینا ہوگی ۔ بصورت دیگر ہم اپنا نام تاریخ کے اوراق میں بھی تلاش نہیں کرسکیں گے ۔