اْمت مسلمہ کے رستے زخموں پر ایک مرتبہ پھر نمک پاشی کی گئی۔روئے زمین پر بسنے والے تمام مسلمانوں کے دل ایک مرتبہ پھر مجروح ہوئے۔یہودی لابی اپنے مظلوم مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں سرگرم عمل ہے آسیہ ملعونہ کیس کی صدائے باز گشت ابھی سنائی دے رہی تھی کہ فضاء میں رمشاء مسیح کیس کی صداء گونجنے لگی ،نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیمیں ،این جی اوز اور انسانیت کے نام پر انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹنے والے مغرب کے ہرکارے ایک مرتبہ پھر متحرک ہوئے اور رمشاء مسیح کیس کو دبانے کی کوششیں کیں اور اس کو نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا۔اس کے ساتھ ساتھ گستاخانہ فلم کے ذریعے رسولﷺکی ذات گرامی کے بارے میں سخت نازیبا الفاظ استعمال کئے گئے ۱۱ ستمبر کو جاری ہونے والی اس گستاخانہ فلم کے بعد تمام مسلم ممالک میں بے چینی کی لہر دوڑ اٹھی تہران ،انڈونیشیا ، مصر، لیبیا،افغانستان ،اور پاکستان سمیت تمام ممالک میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ احتجاج کا نتیجہ تو یہ ہونا چاہیئے تھا کہ اسلام مخالف فلم کے فرضی کردار سام باسیلے کواپنے کئے پر معافی مانگنی چاہیئے تھی لیکن طرفہ تماشہ کہ اس ملعون نے فلم کے خلاف پوری دنیا میں احتجاج پر مسلمانوں کو صبر کرنے کی تلقین کی ہے اور نعوذباللہ اسلام کے بارے ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا کہ ’’اسلام کینسر ہے۔‘‘یہودی سرمائے سے بننے والی اس فلم کے پس پشت امریکی اشیرباد کافی حد تک کار فرما ہے امریکی صدر باراک اوبامہ نے بھی اس کی مذمت نہیں کی جو کہ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے ان واقعات کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو یہ ایک تاریخی تسلسل ہے۔ان واقعات کے نتیجے میں مسلمانوں کی مذہبی و دینی حمیت کا ٹمپریچرچیک کیا جاتا ہے گاہے بگاہے اس طرح کے مذموم کردار سامنے لائے جاتے ہیں۔ہر بارجانچنے اور پرکھنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کی بے لگام کوریج کے نتیجے میں حیا باختہ عوام میں مذہبی غیرت کس حد تک موجود ہے۔برصغیرپاک و ہندمیں کتاب ’’رنگیلے رسول‘‘ کے مصنف سے لیکر فلم ’’مسلمانوں کی معصومیت ‘‘تک اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔ہر بار مسلمان ان کو اس معاملے میں کفر کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنتے نظر آئے۔تمام تر مسلکی اختلاف کے باوجود توہین رسالت کے مسئلے میں تمام مسالک کی بے مثال یکجہتی کفر کے منہ پر طمانچہ ہے۔اسی اتحاد و یکجہتی کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔اب کی بار عرب دنیا میں بیداری کی لہرخوش آئند ہے۔ ان واقعات کے نتیجے میں راقم اس حد تک پہنچتا ہے کہ جب کبھی توہین رسالت کا کوئی ملزم توہین کا ارتکاب کرتا ہے تو مغربی ہرکارے پاگل کتوں کی طرح اس کی آزادی کے لئے کوشاں ہو جاتے ہیں۔ اس کے لئے اول طریقہ جو اختیار کیا جاتا ہے وہ ملزم کو ذہنی طور پر نادرست قرار دینے کا چربہ ہوتا ہے۔اس کے لئے میڈیکل سرٹیفکیٹ پیش کیے جاتے ہیں۔اگر یہ چربہ کامیاب نہ ہو تو عالمی استعمار کے ذریعے مقتدر قوتوں پر دباؤ ڈال کر ملزم یا ملزمہ کو دائیں بائیں کر کے معاملہ ٹھنڈا ہونے کے نتیجے میں بیرونی آقاؤں کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔اس ضمن میں پہلی بات تو یہ ہے کہ ملزم کا ذہنی توازن صرف اس حد تک خراب ہوتا ہے کہ وہ قرآن پاک یا رسولﷺکی ذات کے خلاف یاوہ گوئی کا ارتکاب کرتا ہے وہ کسی اور کے خلاف ہرزہ سرائی کیوں نہیں کرتا دوسری با ت یہ کہ انسانی حقوق کی نام نہاد تنظیمیں صرف مجرموں کو پناہ دینے کے لئے کیوں سرگرم ہوتی ہیں ؟اقلیتوں کے حقوق کا کیوں اتنا پرچار کیا جاتا ہے۔؟پوری دنیا میں مسلمان ماؤں ، بہنوں ،اور بیٹیوں خصوصاًڈاکٹر عافیہ کی ظلم پر مبنی سزا اور قید و بند کی صعوبتیں ان کے پتھر دلوں کو کیوں نہیں پسیجتیں۔۔۔؟انسانیت کے حقوق کا ڈھنڈوراپیٹنے والوں کا دوہرا معیار محل نظر ہے۔تیسری بات جو اس طرح کے واقعات کے نتیجے میں سامنے آتی ہے وہ یہ کہ مسلم ممالک میں توہین رسالت کے خلاف قوانین کو ختم کرنے کے لئے مقتدر قوتوں پر دباؤ بڑھا دیا جاتا ہے۔گزشتہ برس 295/c کے خاتمے کے لئے شیری رحمان کا اسمبلی میں بل پیش کرنا اور پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کا اس کی حمایت کرنا اسی سلسلے کی کڑی تھی۔
ملعون سلمان رشدی ،ملعونہ آسیہ ، رمشا مسیح اور حال میں گستاخانہ فلم کے ہدایتکار سام باسیلے اور ان کے ہمنواؤں کویہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ ان کی زہر آلود زبان اور قلم کے استعمال سے نبی آخر زمان جناب محمدﷺکی ذات میں ذرا برابر بھی کمی نہیں ہوتی بلکہ اس کے نتیجے میں پوری دنیا سے احتجاج کے ذریعے عالمی استعماراور کفریہ طاقتوں تک یہ بات پہنچ جاتی ہے کہ آپ ﷺ کے ماننے والے اور آپﷺ سے والہانہ محبت رکھنے والے غازی علم الدین شہید کے روحانی فرزند آج بھی کثیر تعداد میں موجود ہیں تاہم مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم (او آئی سی)اور تمام مسلم ممالک کے سربراہان کو اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے اس فلم کے ہدایتکار سام باسیلے کو اس بات پر مجبور کیا جائے کہ وہ مسلمانوں سے ان کی دل آزاری کرنے پر معافی مانگے۔اس سلسلے میں اجتماعی طور پرسب سے اہم بات یہ ہے کہ متعلقہ ممالک کے ساتھ سوشل بائیکاٹ کیا جائے تمام مسلم ممالک (یو ٹیوب)پر پابندی عائد کریں اس کے ساتھ ساتھ انفرادی سطح پر ہر مسلمان سنت رسولﷺکے ساتھ محبت اورآپ ﷺ کی اطاعت اور فرمانبرداری کو اپنا شعار بنائے، آپ ﷺ کے مبارک طریقوں کو اپنی زندگی میں ڈھالنے کی کوشش کرے اس کے نتیجے میں آپ ﷺ کی سنتوں کا احیاء ہوگا اور کفر کا منہ کالا ہوگا۔اللہ تعالی ہم سب کو آپﷺ کی سنتوں پر عمل کی توفیق مرحمت فرمائیں۔۔۔۔۔(آمین)۔