تحریر ۔۔۔ حسن محمود
کیلاش جہاں محبت کی شادی لڑکی کا مذہبی فریضہ ہے ایک ایسا قبیلہ جہاں کی لڑکیاں اپنی پسند کے مرد سے اعلانیہ شادی کر سکتی ہیں اور جب چاہیں اپنے خاوندکو طلاق بھی دے سکتی ہیں ایک ایسا
قبیلہ جہاں والدین بچوں پر اپنی مرضی نہیں چلاتے وادی کیلاش، پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخواہ چترال کے قریب واقع ہے اس علاقہ کے زیادہ تر لوگ مسلمان نہیں ہیں ان کیرسم و رواج ہزاروں
سال سے چلے آ رہے ہیں کیلاش قبیلہ میں خواتین کو کلیدی حیثیت دی جاتی ہے وہ گھر کی حکمران سمجھی جاتی ہے گھر کے تمام اہم فیصلے ان کے ہاتھ میں ہوتے ہیں حتیِ کہ وہ تمام مالی معاملات بھی خود
ہینڈل کرتی ہیں گھر کے اور باہر کے تمام معاملات کام کاج ان ہی کے سپرد ہوتے ہیں شادی،بیاہ فوتیدگی اور ہر قیسم کے فیسٹیول میں ان کو خاص اہمیت حاصل ہوتی ہے کہ وہ شادی کے فیصلہ کرنے
میں بھی مکمل آزاد ہوتی ہیں لڑکیاں اپنے پسند کے شحص سے شادی کرتی ہیں ائر جب چاہیں اسے طلاق دے سکتی ہیں شادی شدہ ہوتے ہوئے بھی اپنی پسند کے کسی بھی دوسرے شخص سے شادی کر سکتی
ہیں اور اس امر پر پہلے خاوند کو اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں ہوتااور وہ پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوتا ہے کیلاش قبیلہ ہر سال چلم جوش فیسٹیول مناتاہے اس فیسٹیول میں بہت ساری مختلف تقریبات منعقدکی جاتی ہیں مختلف قسم کے انواع و اقسام کے کھانے پکائے جاتے ہیں دودھ تقسیم کیا جاتا ہے اور قبیلے کی خواتین اور لڑکیاں ثقافتی رقص پیش کرتی ہیں اس تہوار میں سب سے خاص اور اہم بات یہ ہے کہ تین دین کے اس
تہوار میںآخری دن لڑکے اور لڑکیاں اپنے پسند کا اظہارکرتے ہیں جو لڑکی جس لڑکے سے شادی کرنا چاہیے ہے اسے سب کے سامنے میدان میں لے ہے یوں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے خوب خوشی مناتے ہوئے اور ہلہ گلہ کرتے ہوئے مبار ک بادوں کی گونج میں ان کا رشتہ طے ہوجاتا ہے ایک رسم میں لڑکے کو لڑکی بھگا کر اپنے گھر لیجانی ہوتی ہے لڑکے کے والدین لڑکی کے والدین اور گاؤں کے بڑوں کو یس کی خبر کرتے ہیں جو لڑکی سے تصدیق کرتے ہیں کے یس کے ساتھ کوئی زبرڈستی تو نہیں ہوئی یوں رشتہ ہو جاتا ہے دعوتوں کا اہتمام ہوتا ہے اور تحائف دیئے جاتے ہیں شادی کے چوتھے روز لڑکی کا ماموں اتا ہے لڑکے والے اس کو ایک بیل اور ایک بندوق تحفے میں دیتے ہیں تحائف کا یہ سلسلہ کافی دن تک چلتا ہے پہلے بچے کی پیدائش پر زبردست قسم کی دعوت کی جاتی ہے یہ دعوت لڑکی والوں کے گھر ہوتی ہے پر اس کا تمام خاچ لڑکے والے اداکرتے ہیں اس دعوت میں بیل اوربکرے دبح کیے جاتے ہیں اس کے علاوہ لڑکے والے لڑکی والوں کو فی کس دق ہزار رپیہ بھی دیتے ہیں اکر پہلے بچے کے بعد دوسرا بچہ بھی اس ہی جنس کا ہو تو یہی سلسلہ پھر دہرایا جاتا ہے کیلاش کی لڑکیاں شادی کے بندھن میں تو بندھ جاتی ہیں لیکن یہ بندھن ان لڑکیوں کو روائیتی انداز میں پابند نہیں کرتاایک اور خاص بات جو اس قبیلہ کے رسم و رواج میں اہم ہے وہ یہ کہ لڑکا لڑکی کو اچھی خاصی رقم دینے کا پابند ہوتا ہے شادی ختم کرنے کی صورت میں اس لڑکی کا دوسرا خاوند پہلے خاوند کو اسی رقم کا دو گنا اداء کرنے کا پابند ہوتا ہے اور اگر لڑکی دوسری شادی نہیں کر رہی ہو تو لڑکی کا باپ یہ پیسے دینے کا پابند ہوتا ہے اگر کیلاش لڑکے یا لڑکی کو کیسی مسلمان سے پیار ہو جائے تو یس شادی کی واحد صورت یپ ھی ہے کہ کیلاش کو اسلام قبول کرنا ہوتا ہے خواہ وہ لڑکا ہو یا لڑکی حالیہ عرصے میں شادی
قطع نظر کیلاش لڑکیوں میں اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے جس سے مقامی لوگوں کے ساتھ ساتھ یورپین این جی اوز بھی پریشان ہیں جو اس علاقہ میں کام کر رہی ہیں ان این جی اوز کی جانب سے ہر کیلاش فرد کے لییایک بنک اکاؤنٹ کھولا گیا ہے جس میں ہر ماں پابندی سے بیرونے ملک سے رقم ڈالی جاتی ہے جسکے عوض فقط یہ ہی مطالبہ کیا جاتا ہے کہ مسلمان بننے سے پرہیز کیا جائے اگر کیلاش مذہب سے بیزار ہوں تو
عیسائی بن جائیں ان وادیوں میں پیدا ہونے والی بچہ رہتا تو کافرستان میں ہی ہے لیکن اسے پیدیئش کے ساتھ ہی کوئی یورپین گود لے لیتا ہے اور اس کے لیے ہر ماں رقم بیھجتا رہتا ہے ایسا کیون کیا جاتا ہے معلوم نہیں ہو سکا اس قبیلہ میں کسی فرد کی موت بھی باقاعدہ ایک رسم کے طور پر منائی جاتی ہے مرنے والے کا جسم کو ایک دن تک کمیونٹی ہال میں رکھا جاتا ہے اور مہمانوں کے لیے ستر سے اسی بکرے آٹھ سے دس بیل دبح کیے جاتے ہیں ان کو دیسی گھی میں پکایا جاتا ہے شراب و غیرہ کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے مرنے والے کی آخری رسومات کو جشن کے طور پر منایاجاتا ہے شراب کے ساتھ ہوائی فائرنگ ائر ڈانس بھی کیا جاتا ہے مرنے والے کی ٹوپی میں کرنسی نوٹ ،سگرٹ رکھی جاتی ہے پرانے وقتوں میں پردے کو تابوت میں ڈال کر قبرستان میں رکھ آتے تھے آج کل اسے دفنانے کا رواج ہے ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ مرنے والے کو خوشی سے رخصت کیا جاناچاہیے کیلاش میں ایک ہونے والی بوتگی خاندان کو اوسطا آٹھارہ لاکھ میں پرتی ہے جبکہ یہ کم سے کم سات لاکھ ائر زیادہ سے زیادہ پینتیس لاکھ تک بھی چلی جاتی ہےّ ّ اٹھارہ لاکھ میں پڑتی ہے اس تہوار میں پوری دنیا سے سیاح جوق در جو
اس تہوار میں پوری دنیا سے سیاح جوق در جوق آتے ہیں جو کے ہر سال 13 مئی سے 16مئی تک منائیا جاتا ہے اس تہوار کی سیکیورٹی آرمی اور رینجرز کے سپرد ہوتی ہے۔