تحریر: رانا اعجاز حسین چوہان
امریکہ میں موجود پاکستانی سفارتی اہلکاروں پر بلاجواز امریکی پابندیوں کے بعد جوابی کارروائی کرتے ہوئے پاکستان نے بھی اسلام آباد میں قائم امریکی سفارتخانے سمیت ملک بھر میں موجود امریکی قونصل خانوں کے عملے کے لئے پیشگی سفری اجازت نامے کی شرط عائد کرنے سمیت متعدد پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ پاکستان کے دفتر خارجہ کی طرف سے کی طرف سے امریکی سفارتخانے کو جاری ایک خط میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی ہوائی اڈوں اور بندرگاہوں پر امریکی سفارتی سامان کی، سفارتی تعلقات کے بارے میں ویانا کنونشن کے آرٹیکل 27 کی شقوں کے مطابق سخت جانچ پڑتال کی جائے گی۔کیونکہ اس آرٹیکل کے تحت سامان کو اسکینگ کے عمل سے استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے سرکاری حکام اور غیر ملکی سفارتکاروں کے درمیان روابط کے ان اصوبوں پر سختی سے عملدرآمد کیا جائے گا جن کا گزشتہ ماہ کی 27 تاریخ کو امریکی سفارتخانے سے تبادلہ کیاگیاتھا۔ مزید یہ کہ امریکی سفارتخانے اور قونصل خانوں کیلئے سرکاری گاڑیوں اور کرائے پر لی گئی گاڑیوں پر کالے شیشے آئندہ سے نصب نہیں کئے جائیں گے،سرکاری گاڑیوں پر غیرسفارتی نمبر پلیٹس نہیں لگائی جائیں گی ، اور اور بائیو میٹرک تصدیق کے بغیر یا غیر رجسٹرڈ موبائل فون سم استعمال نہیں کی جا سکے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکی سفارتخانہ بغیر این او سی کے کرائے پر جگہ نہیں لے سکتا اور نہ ہی اپنی موجودہ جگہ کسی کو دے سکتاہے۔ ان پابندیوں کے مطابق امریکی سفارتخانے کے رہائشی اور محفوظ مقامات پر بغیر این او سی کے ریڈیو مواصلاتی آلات نہیں لگائے جا سکتے۔ امریکی سفارتکار ایک سے زائد پاسپورٹ نہیں رکھ سکیں گے، امریکی سفارتکاروں کا قیام جاری کئے گئے ویزے کی مدت کے مطابق ہوگا۔پاکستان کی جانب سے امریکی سفارتکاروں پر لگائی گئی پابندیوں کا اطلاق 11 مئی سے ہوگا۔ وزارت خارجہ نے اپنے خط میں یہ بھی ہدایت کی ہے کہ امریکی سفارتکار پاکستانی اعلیٰ حکام اور غیر ملکی سفارتکاروں سے قواعد کے مطابق ملاقاتیں کریں گے۔ واضح رہے کہ جمعہ11مئی کے روز امریکہ کی جانب سے پاکستانی سفارتکاروں پر سفری پابندیاں عائد کرنے کے اقدام کے جواب میں پاکستان نے بھی امریکی سفارتکاروں پر نقل و حرکت سے قبل اجازت لینے کا حکم دیا ہے۔ امریکہ نے پاکستانی سفارتکاروں کے شہر سے 25 میل باہر جانے کی صورت میں امریکی حکام سے اجازت لینے کی شرط عائد کر دی تھی جس کے جواب میں پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے امریکی سفارتکاروں پر بھی اس قسم کی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ جبکہ امریکی قانون سازوں نے ٹرمپ انتظامیہ کو یہ مشورہ دیا ہے کہ ایسے اقدامات دونوں ملکوں کے مفاد میں نہیں ہے، اور وہ کوئی ایسا اقدام نہ کریں جس سے بات چیت کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہو۔ اس طرح کے اقدام دونوں ممالک کے کشیدہ تعلقات کو مزید بڑھائیں گے۔ امریکی کانگریس کے رکن ڈونلڈ کارکوس نے پاکستان امریکن کانگریس کے اجلاس سے خطاب میں پاکستان کے ساتھ تعلقات جاری رکھنے کی اہمیت پر زور دیا ہے۔
حقیقت حال یہ ہے کہ نائن الیون کے بعد فوجی آمر پرویز مشرف کو اپنے اقتدار کے تحفظ، اور امریکی دھمکیوں کے باعث دہشت گردی کے خلاف پرائی جنگ میں شامل ہونا پڑا۔ مگر شمولیت کے بعد پاکستان نے امریکہ کے فرنٹ لائن اتحادی کے طور پر امن و امان کے قیام اور خطے سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے جنگ اس قدر جانفشانی سے لڑی کہ پاکستان کے تقریباً 73ہزار شہریوں اور سکیورٹی اہلکاروں کو جان قربانی دینا پڑی، اس کے علاوہ پاکستان کو تقریباً 150 ارب ڈالر سے زائد کا اقتصادی نقصان برداشت کرنا پڑا۔ دیکھا جائے تو کسی بھی جنگ میں اس سے بڑی قیمت ، اور اس سے بھاری نقصان اور کیا ہوسکتا ہے۔ مگر امریکہ جسے اپنی ناقص حکمت عملی اور جابرانہ سوچ کی بدولت افغان سرزمین پر شکست فاش کا سامنا ہے ، دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں پاکستان کی مثالی خدمات کے اعتراف کی بجائے کھلی دھمکیاں دیتے ہوئے اور دہشت گردوں کو محفوظ ٹھکانے فراہم کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے اپنی شکست کا نزلہ پاکستان پر ڈالتا رہا ہے ۔ آج ہمیں قومی یکجہتی کو فروغ دے کر امریکہ کے اس دہرے کردار کو بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے۔ اس تناظر میں سب سے مناسب یہی ہے کہ امریکہ کی افغانستان ، پاکستان اور جنوبی ایشیاء کی پالیسیوں میں تبدیلی کے بعد پاکستان بھی اپنی پالیسی میں تبدیلی لائے ، اور خود کو اس پرائی جنگ سے علیحدہ کرتے ہوئے امریکہ کو افغانستان میں اپنی جنگ خود لڑنے دے، جہاں طالبان آج بھی اسکی مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں۔جب امریکہ کو ہماری قربانیوں کا اعتراف ہی نہیں تو ہمیں اس پرائی آگ میں خود کو مذید جھلسانے کی کیا ضرورت ہے۔ پاکستان کو امریکہ کی آنکھوں میںآنکھیں ڈال کر اسے واضع بتا دینا چاہئے کہ پاکستان دیگر ملکوں کی طرح کمزور نہیں جوکہ با آسانی امریکی ترنوالہ بن جائے بلکہ پاکستان ایٹمی طاقت کا حامل ایک ایسا مضبوط ملک ہے جس کی حفاظت کیلئے جان پر کھیل جانے والی بہادر مسلح افواج دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی جانوں کی قربانی پیش کرکے ، اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی خصوصی نصرت و مدد سے پوری دنیا میں اپنی شجاعت و بہادری کی دھاک بٹھا چکی ہے۔ دوسری جانب نیٹو فورسز دنیاکے جدید ترین جنگی سامان حرب و ضرب سے لیس ہونے کے باوجود دہشت گردی کیخلاف لڑی جانے والی جنگ میں افغان سرزمین کو دہشتگردوں سے پاک تو درکنار انہیں اپنی جگہ سے ہلا بھی نہیں سکی، اور دندناتے پھرتے دہشت گرد آج بھی افغانستان میں ا ن کا منہ چڑا رہے ہیں۔ امریکہ میں پاکستانی سفارتکاروں پر پابندیوں کے بعد پاکستان کی جانب سے امریکی سفارتکاروں پر پابندی کا فیصلہ لائق تحسین ہے کیونکہ پاکستان اپنی سرزمین کو دہشت گردوں سے پاک کررہاہے،اور یہاں کسی بھی دوسرے ملک کی بلا اجاز ت نقل و حرکت برداشت نہیں کرسکتا۔