تحریر: ڈاکٹر تصور حسین مرزا
ویانا کنونشن سفارتکاروں کو استثنیٰ دیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ کرنل جوزف کو امریکہ بھیج دیا گیا ہے ۔ تین دن قبل خبرکی تھی کہ اسلام آباد میں گاڑی کی ٹکر سے نوجوان شہری عتیق بیگ کی جان لینے والہ امریکی سفارت کار کرنل جوزف کا نام بلیک لسٹ میں شامل کر لیا گیا ہے، ہر محب وطن یہی سمجھ رہا تھا کہ کرنل جوزف پاکستان نہیں چھوڑ سکتا۔ کرنل جوزف کو سفارتی استثنیٰ حاصل ہے،آفیشل ڈیوٹی کے دوران حادثے کی صورت میں ویانا کنونشن سفارتکاروں کو استثنیٰ دیتا ہے۔ اگر کوئی سفارتکار اپنا استثنیٰ واپس لے لے تو پھر ٹرائل کیا جا سکتا ہے۔یہ انٹرنیشل لاء ہے یا ہماری مجبوری اگر ہم اس کو پاکستان کی مجبوری نہ مانے تو کیا ہم پاکستان کی کمزوری کہہ سکتے ہیں ؟ اگر یہ بین الاقوامی قانون کی پاسداری ہے تو پھر سوچنا ہوگا۔
یہ امر قابل زکر ہے کہ 7 اپریل کو امریکی ملٹری اتاشی کرنل جوزف نے سگنل کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دو موٹر سائیکل سوار افراد کو روند دیا تھا جس کے نتیجے میں عتیق بیگ نامی نوجواں موقع پر جاں بحق اور اس کا کزن شدید زخمی ہوگیا تھا۔ اگر یہ اسی طرح بین القوامی ویانا کنونشن سفارتکاروں کو استثنیٰ دیتا ہے۔ سوچنے والی بات ہے کہ ہم اپنے شہریوں کے قاتلوں کو عزت و احترام سے رخصت کرتے ہیں، ہم پٹرول ڈیزل سمیت تیل کی قیمتوں کا اتار چڑھاؤ بین الاقوامی ضابطوں کے مطابق کرتے ہیں، سونا چاندی سمیت ہر قسم کی دھاتوں کی قیمتوں کاتعین بھی بین الاقوامی اصولوں کے مطابق کرتے ہیں افسوس صحت جیسے بنیادی شعبہ میں بین الاقوامی قانون لاگو نہیں کرتے؟ کیونکہ دنیا بھر میں ہر قسم کی روزہ مرہ کی عام سردردوالی ادویات جیسا کہ ڈسپرین وغیرہ اور فرسٹ ایڈ پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں اور نہ ہی اس میں ملوث لوگوں کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے بلکہ حوصلہ افزائی عوامی اور حکومتی سطع پر کی جاتی ہے۔
پاکستان میں اتائیت کیا ہے سمجھنے کے لئے صرف ’’ دوکام ‘‘ کرنے سے اتائیت کا اصل چہرہ بے نقاب ہو سکتا ہے۔ پہلا کام فرسٹ ایڈ ( جسمیں عام مرہم پٹی )ہسپتال تک پہنچانے کے لئے فرسٹ ایڈ مہیا کرنے والوں کو اتائیت کے زمرے میں شامل نہ کیا جائے ۔دوسرا کام ہ جیسا امریکہ افریقہ یورپ سمیت دنیا میں ہوتا ہے یعنی (روزِ مرہ کی عام ادویات ) ڈسپرین عام سردرد بخار کے لئے جو استعمال ہوتی ہیں اگر اتائیت کے دائرے میں داخل نہ ہوں تو یقیناہم ’’ اتائیت ‘‘ کی اصل تصویر دیکھ سکتے ہیں ۔
۔ہر جگہ گلی محلے میں کوئی نہ کوئی کلینک دوخانہ سیل کیا گیا ہے۔ محکمہ صحت نے اتائیٹ کے خلاف بھر پور ایکشن لیاہے۔ زندگی کے دیگر مکتبہ فکر کے لوگوں کی طرح ہومیوپیتھک ڈاکٹرز اور مستند حکماء نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے اس فیصلہ کو سراہا ہے ۔جس میں اتائیت کو ختم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔اتائیت کے مکمل خاتمہ کے لئے ضروری ہے ۔سب سے پہلے اتائیت کی حدود بندی یا عام سادہ سی تعریف کی جائے جس سے ہر خاص و عام کو ’’ اتائیت ‘‘ کیا ہے معلوم ہو سکے! چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس ثاقب نثار کے حکم کے بعد محکمہ صحت نے اتاتیت کے خاتمہ کے لئے کریک ڈاؤن سمیت تمام ممکن اقدام اٹھائے جس کوتمام پاکستانیوں ، ہومیوپیتھک ڈاکٹرز اور حکماء حضرات نے زبردست خراجِ تحسین پیش کیا ۔کیونکہ ہر پاکستانی صحت کے معاملے میں تشویش میں مبتلا تھااور مبتلا ہے۔ تعلیم اور صحت ہر شہری کا بنیادی حقوق ہے ۔ افسوس اتائیت کے خاتمہ کے نام پر محکمہ صحت کی حکمت اور ہومیوپیتھی معالجین سے سوتیلی ماں والہ سلوک نے
محکمہ صحت کی پھرتیوں پر کئی قسم کے شک و شبہات پیدا کر دئیے ہیں
جیسا کہ ان دواخانوں اور کلینکس کو بھی سیل کر دیا گیا ہے جو حکومت کے پاس باقاعدہ رجسٹرڈ تھے۔ اور کہا گیا ہے کہ وہ اتائیت میں ملوث ہے۔ اتائیت اصل میں وہ لوگ پھیلا رہے ہیں جن کے پاس کسی قسم کی میڈیکل کی تعلیم و سند نہیں ۔لیکن سیل ہونے والے کلینکس اور دواخانوں کی بہت بڑی تعداد میں وہ شامل ہیں جن کے پاس فرسٹ ایڈ یا عام روزے مرہ کی پیراسٹامول ہی برآمد ہوئی ہو۔بے شک وہ زاتی استعمال کی ہو۔کچھ کلینکس ایسے بھی سیل کئے گئے ہیں جہاں شوگر بلڈ پریشر بخار چیک بکرنے والے آلات موجب ٹھہرائے گئے۔ جو سرا سر غلط ہے کیونکہ نیشنل کونسل فار ہومیوپیتھی اور قومی طبی کونسل سے ایسے لوگ چار سالہ ڈپلومہ پاس ہیں اور پھر باقاعدہ رجسٹرڈ پریکٹیشنر ہے۔پناب ہیلتھ کئیر کمیشن کا وجود ہی ملک سے اتائیت کے خاتمہ کے لئے لایا گیا تھا اور سب سے زیادہ جو معالجین PHC میں رجسٹرڈ ہوئے وہ ’’ ہومیوپیتھک ڈاکٹرز ‘‘ تھے۔
بد قسمتی ہے ہومیوپیتھک معالجین کی اور کمزوری ہے نیشنل کونسل برائے ہومیوپیتھی کی جو اپنے ہی ملک میں بے بسی لاچاری کی تصویر بنے ہوئے ہیں ۔اگر ہومیوپیتھک کوالیفائڈ اور رجسٹرڈ ڈاکٹرز کو لاوارث نہ سمجھا جاتا ۔ یا ان کے سر پر نیشنل کونسل برائے ہومیوپیتھی کا دست شفقت ہوتا تو کوئی پوچھتا؟
کہ بند ہومیوپیتھک کلینکس کو سیل کیوں کیا گیا؟مارننگ ٹائمز والے کلینکس شام کو اور شام کو کھلنے والے کلینکس صبح کے وقت کیوں سیل ہوئے؟
اگر اتاتیت میں ملوث ہونے کی مصدقہ اطلاعات تھی تو کیا مصدقہ اطلاعات اوقات کار کی نہ تھی؟
فرض کر لیں کلینکس کے اوقات کار میں کلینکس بند تھے یا بند کر دئے گئے تھے( دونوں صورتوں میں )محکمہ صحت کی کارکردگی نے جائز یا ناجائز بند کلینکس کو سیل کر دیا۔ایک نقطہ نے محرم سے مجرم بنا دیاوالہ قصہ ہو گیا۔جب کوالیفائڈ اور رجسٹرڈ ہومیوپیتھک معالجین اور حکماء حضرات بندکلینکس کوجو سیل لگائی گیءں تھیں ان کو ڈی سیل کروانے پہنچ گئے تو ’’ محکمہ صحت ‘‘ نے ان قوم کے مسیحا کی خوب دیکھ بھال کی۔ یعنی روز روز محکمہ صحت کے دفاتر کے چکر۔۔۔۔ہفتہ عشرہ کی ذلالت کے بعد PHC لاہور کا مشورہ حالانکہ اکثریت ہومیوپیتھک ڈاکٹرز کی تعداد پہلے ہی PHC سے رجسٹریشن حاصل کئے ہوئے تھے۔مرتا کیا نہ کرتا۔۔۔جب معصوم اور بے قصور ہومیوپیتھک معالجین بند کلینکس کو کھلوانے کے لئے لاہور پنجاب ہیلتھ کئیر کمیشن پہنچے تو درخواستیں وصول کی گئی اور کورٹ کے تا حکم ثانی ’’ صرف انتظار ‘‘کا مشورہ لیکر واپس آگئے۔کاش کوئی تو ایسا ہو جو بے قصور ہومیوپیتھک ڈاکٹرز اور حکماء کی پرشانی ، بدنامی اور عزتِ نفس کو سمجھے۔کیا ان معالجین کو صرف ہومیوپیتھک یا طب سے وابسطہ ہونے کی سزا مل رہی ہے یا عملی طور پر نیشنل کونسل( طب و ہومیوپیتھی) اپنی افادیت کھو چکی ہے؟
جو کلینکس دواخانے بند تھے اور جان بوجھ کر ان کو سیل کر دیا گیا تھا۔ پھر بند کلینکس اور دواخانوں کے کوالیفائڈ اور رجسٹرڈ معالجین اپنے کوائف اور کلینکس چیک کروانے کے لئے محکمہ صحت کے در پر مسلسل حاضری دے رہے ہیں مگر کوئی شہنوائی نہیں ۔ کیا ایسے حقیقی معالجین کو محکمہ صحت اتاتیت کیوں سمجھ رہا ہے؟ کیا ان بے قصور اور بے بس ہومیوپیتھک ڈاکٹرز اور حکماء کی کوئی عزت نفس نہیں ؟ کیا یہ قومی مسیحا نہیں ؟ گزارش ہے کہ اتائیت کا خاتمہ ضروری ہے مگر ہومیوپیتھک ڈاکٹرز اور حکماء کو اتائیت نہ سمجھا جائے