تحریر۔چودھری عبدالقیوم
اکتیس مئی 2018کو مسلم لیگ ن کی حکومت اپنے اقتدار کے پانچ سال پورے کررہی ہے اس طرح پاکستان کی سیاست نے جمہوریت کا ایک اور سنگ میل پار کرلیا ہے۔دوسری طرف میاں نوازشریف نے تیسری بار بھی اپنی وزارت عظمیٰ کی مدت پوری نہ کرنے کا ریکارڈ قائم کردیا ہے جسے دنیا بھر میں واحد مثال قرار دیا جاسکتا ہے۔بحرحال26 مئی کو صدر مملکت ممنون حسین نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی ایڈوائس پر 25 جولائی کو عام انتخابات کرانے کا اعلان کردیا ہے ۔اس طرح رمضان اور شدید موسم گرما کے دوران پاکستان کا سیاسی ماحول گرم سے گرم ہوتا جائے گا۔الیکشن میں گرمی اس لیے بھی بڑھے گی کہ آئندہ دو تین ہفتوں میں سابق نااہل وزیراعظم میاں نوازشریف کے خلاف کیسز کا فیصلہ بھی متوقع ہے اور غالب امکان یہ ہے کہ میاں نوازشریف کو سزا ہوگی اور وہ جیل چلے جائیں گے اس طرح وہ اپنی سیاست کے تیس پینتیس سالوں میں پہلی بار نہ صرف الیکشن لڑنے سے محروم رہیں گے بلکہ اپنی پارٹی کی قیادت بھی نہیں کرسکیں گے خیال کیا جاتا ہے کہ2018ء کے عام انتخابات ملک کی تاریخ کے نہایت اہم الیکشن ثابت ہونگے ۔جس میں بہت کچھ نیا دیکھنے کو ملے گا اور ایک نیا سیاسی کلچر سامنے آئے گا۔سپریم کورٹ اور نیب کے جاری احتساب کیسزکے دوران یہ عام انتخابات آئندہ کی ملکی سیاست کے نئے خدوخال بھی تشکیل دیں گے۔موجودہ اتخابات میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کا رول بڑا اہم ہوگا کہ وہ اگر امیدواروں کی اہلیت جانچنے کا کڑا معیار قائم کرتے ہیں تو امید ہے کہ اس دفعہ ماضی کے مقابلے میں کہیں اچھے اور بہتر لوگ سامنے آئیں گے۔خاص طور پر کرپشن اور جرائم میں ملوث لوگوں کو سیاست میں مشکل پیش آئے گی خاص طور پر الیکشن میں پیسے کے بل بوتے پر کامیابی حاصل کرنے کی بجائے دیانتدار،باکردار اور اہل لوگوں کا آگے آنے کا موقع ملنا چاہیے جو واقعی اس ملک اور عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔اگر ایسا ہوتا ہے تو لازمی طور پر جنرل ضیاء الحق کے 1985ء کے غیرجماعتی الیکشن کے ذریعے سیاست میں آنے والے غیرسیاسی لوگوں کا صفایا ہوجائیگا جو اپنے سرمائے کے بل بوتے پر سیاست پر قابض ہوگئے تھے اور انھوں نے سیاست کو ایک کاروبار بنا دیا تھا۔سیاست ملک اور قوم کی خدمت کا ذریعہ ہے لیکن بدقسمتی سے وطن عزیز کی سیاست میں روایتی سیاستدانوں کی بجائے دیگر شعبوں کے لوگوں کا غلبہ ہے ۔جس کیوجہ سے سیاست میں بھی کئی خرابیاں پیدا ہوچکی ہیں۔اسمبلیوں اور اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے لوگوں کو عوام اور ملک کے مسائل کی کوئی فکر نہیں ہوتی ان کا اپنا ایجنڈہ اور مقاصد ہوتے ہیں ،یہ ایک افسوسناک اور تلخ حقیقت ہے کہ وطن عزیز کی سیاست اور اقتدار میں ایسے لوگ بھی شامل ہوچکے ہیں جو پاکستان کی سالمیت کیخلاف سیاست میں سرگرم رہتے ہیں اور غیرملکی طاقت کے اشاروں پر پاکستان مخالف سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں۔جنھیں عوام بھی جانتے ہیں اور ملک کے مقتدر حلقے بھی ان سے بخوبی آگاہ ہیں۔عوام کو بھی چاہیے کہ اپنے ووٹ کی طاقت سے ایسے لوگوں کو سیاست سے باہر پھینک دیں۔دوسری طرف الیکشن کمیشن آف پاکستان کیساتھ متعلقہ اداروں کی بھی قومی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ الیکشن میں آئین اور قوانین پر عمل درآمد کرتے ہوئے پاکستان مخالف عناصر کا راستہ روکیں ۔اور الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں کے کوائف کی مکمل چھان بین کریں۔بتایا جاتا ہے کہ ریٹرننگ آفیسرز کو ایف آئی اے حکام کی مدد بھی حاصل ہوگی جن سے الیکشن لڑنے والے امیدوار کے متعلق تحقیق کی جاسکے گی کہ وہ کرپشن اور کسی جرم میں تو ملوث نہیں کیونکہ ایف آئی اے کے پاس ایسے لوگوں کا مکمل ریکارڈ موجود ہوگا اس لیے امید کی جاتی ہے کہ کرپشن اور مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث لوگ الیکشن میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔الیکشن میں دیانتدار، باکردار اور محب وطن لوگ آگے آئیں تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان کے مسائل حل نہ ہوں اور یہ ترقی نہ کرے اس کے لیے سیاست میں محب وطن،مخلص قیادت کا ہونا ضروری ہے اب عوام کا سیاسی شعور بھی پہلے کی نسبت بہت زیادہ بیدار ہے اس لیے امید کی جاتی ہے کو ووٹ دیتے ہوئے ووٹرز بھی اپنی قومی ذمہ داری کا احساس کریں گے اور اچھے لوگوں کو کامیاب بنائیں گے۔اللہ سے بہتری کی امید ہی رکھنی چاہیے اس لیے عام انتخابات کے نتائج سے بہتری کی امید ہے۔لیکن ایک چیز واضح نظر آرہی ہے کہ موجودہ الیکشن میں کسی ایک جماعت کو اتنی بھاری اکثریت سے کامیابی نہیں ملے گی کہ وہ تنہا اپنی حکومت بنا سکے خاص طور پر مرکز میں سیاسی پارٹیوں کے اتحاد سے حکومت تشکیل دی جاسکے گی۔جس کا اشارہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری بھی دے چکے ہیں کہ الیکشن میں کسی جماعت کو واضح اکثریت ملنے کا امکان نہیں۔یہاں الیکشن کے حوالے سے بعض حلقے اس خدشے کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ الیکشن چند مہینوں کی تاخیر کا شکار ہوسکتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ چونکہ عدلیہ اور نیب میں سیاستدانوں کی کرپشن کے اہم کیسز زیرسماعت ہیں یہ اور اسطرح کی دیگر کیسز الیکشن میں تاخیر کا سبب بن سکتے ہیں جن کے فیصلے الیکشن سے پہلے ضروری خیال کیے جاتے ہیں۔