کراچی(یواین پی) چراغ تلے، خاکم بدہن، زرگزشت، آب گم اور شام شعرِیاراں جیسی شہرہ آفاق کتب کے خالق اب نہیں رہے۔ مشتاق یوسفی ایک عرصہ سے علیل اور کراچی کے نجی ہسپتال میں زیر علاج تھے، ستانوے برس کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔معروف ادیب، مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کافی عرصے سے علیل تھے اور ہسپتال میں زیر علاج تھے جہاں وہ انتقال کرگئے۔ ان کی میت گھر منتقل کردی گئی ہے، مرحوم کی نماز جنازہ جمعرات کے روز بعد از نماز ظہر ڈیفنس کراچی کی سلطان مسجد میں ادا کی جائے گی۔انتقال کی خبر سنتے ہی اہم شخصیات اور پرستاروں کی بڑی تعداد مشتاق احمد یوسفی کے گھر پہنچ گئی۔ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نے مشتاق یوسفی کے انتقال پر گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے مرحوم مشتاق یوسفی کے لواحقین سے اظہار ہمدردی و تعزیت کی، ان کا کہنا تھا کہ مشتاق یوسفی دنیائے اردو ادب کے درخشندہ ستارے تھے۔ اردو ادب کیلئےمشتاق یوسفی کی گرانقدر خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ مشتاق یوسفی کی وفات سے اردو ادب کا نقصان ناقابل تلافی ہے۔ڈاکٹر طاہرالقادری نے بھی عظیم مزاح نگار دانشور مشتاق یوسفی کے انتقال پر اظہار تعزیت کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مشتاق یوسفی دنیائے ادب کا ایک ممتاز نام اور پاکستان کا فخر ہیں۔ اللہ رب العزت مشتاق یوسفی کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دے۔سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے تعزیتی پیغام میں لکھا کہ آج ہمارے عہد میں اردو کا سب سے بڑا نثر نگار ہم سے رخصت ہو گیا۔ دنیا بھر میں اردو بولنے، پڑھنے اور لکھنے والے بے شمار افراد یوسفی صاحب کے انتقال پر سوگوار ہیں۔ مشتاق احمد یوسفی مزاح میں اپنی طرز کے موجد بھی تھے اور خاتم بھی۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔مشتاق احمد یوسفی 4 ستمبر، 1921ء کو ہندوستان کی ریاست ٹونک، راجھستان میں پید اہوئے اور آگرہ یونیورسٹی سے فلسفہ میں ایم-اے کیا جس کے بعد انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایل ایل بی کیا۔تقسیم ہند کے بعد کراچی تشریف لے آئے اور مسلم کمرشل بینک میں ملازمت اختیار کی۔ ان کی پانچ کتابیں شائع ہوئیں جن میں چراغ تلے (1961ء)، خاکم بدہن (1969ء)،زرگزشت (1976ء)،آبِ گم (1990ء)،شامِ شعرِ یاراں (2014ء)آپ کی ادبی خدمات کے پیش نظر حکومت پاکستان نے 1999ء میں ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز کے تمغوں سے بھی نوازا۔