تحریر۔۔۔ ڈاکٹر فیاض احمد ۔۔ لندن
آجکل کے موجودہ دور نے بہت ترقی کر لی ہے کیونکہ یہ ایک ٹیکنالوجی کا دور ہے ہم گھر میں بیٹھے بیٹھے ساری دنیا کی سیر کر لیتے ہیں اسی وجہ سے ہم اپنی روایات کو چھوڑ کر دوسروں کی روایات کو اختیار کرنا ترقی سمجھتے ہیں حالانکہ یہ بالکل غلط ہے جب ہم اپنی پہچان بھول جاتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ہم اپنے آپ کو بھول گئے ہیں جب ہم اپنے آپ کو بھول جاتے ہیں تو یہ ہماری ناکامی کی سب سے بڑی وجہ ہے
میں نے تقریباً دنیا کے تین ممالک دیکھے ہیں اور میں نے نوٹ کیا ہے کہ ہر ملک کی ترقی کا راز اس کی زبان ہوتی ہے کیونکہ وہ اپنی زبان کو یعنی اپنی قومی زبان کو عزت دیتے ہیں لیکن بد قسمتی سے ہماری نئی نسل کو اپنی زبان کی پہچان تو ٹھیک طرح سے ہے نہیں لیکن وہ دوسروں کی زبانیں سیکھنے چلے ہیں بلکہ ہم بین الاقوامی طور پر اپنی پہچان بتاتے ہوئے شرم محسوس کرتے ہیں ہماری قومی زبان اردو ہے جو ہماری پہچان ہے اور اس کی حفاظت اور اس کی عزت کرنا ہمارا فرض ہے جب ہم اس کی حفاظت نہیں کریں گے تو دوسرے لوگ اس کی عزت کیسے کریں گے
حسن کردار سے نورے مجسم ہو جا
کہ ابلیس بھی تجھے دیکھے تو مسلمان ہو جائے
زبان ملک کی ترقی میں ایک خاص اہمیت ہوتی ہے جس طرح کسی شخص کی اصلیت کا اندازہ اس کی زبان سے کرسکتے ہیں اسی طرح زبان کا فروغ ملک کی ترقی کا باعث بنتا ہے جس قدر زبان زیادہ بولی جائے گی اتنی زیادہ تیزی سے ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو گا ہم نے دیکھا ہے کہ جتنے بھی ترقی یافتہ ممالک ہیں جیسا کہ دبئی، یورپ، انگلینڈ اور امریکہ وغیرہ ان کی ترقی کا راز ان کی زبان ہے جس کو وہ زیادہ سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں اس کی مثال یہ ہے کہ وہ ہر جگہ اپنی زبان بولتے ہیں لیکن اس کے بر عکس ہم اپنی زبان کو چھوڑ کر ان کی زبانیں سیکھاتے ہیں آخر کیوں ۔۔؟
اپنے کردار پہ ڈال کر پردہ اقبال
ہر شخص کہہ رہا ہے زمانہ خراب ہے
کیونکہ ہمیں ان کی ثقافت اچھی لگتی ہے ان کی قومی اور علاقائی زبان تقریباً ایک ہی ہوتی ہے لیکن اس کے برعکس ہماری قومی اور علاقائی زبان بالکل مختلف ہوتی ہے ہمارے معاشرے کا ہر فرد اپنی علاقائی زبان کو ترجیح دیتا ہے جس کی وجہ سے ہماری قومی زبان دب جاتی ہے اس وقت دنیا میں کئی زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن ہر ملک اپنی زبان کو اہمیت دیتا ہے ہمارے معاشرے میں زیادہ تر پڑھے لکھے افراد قومی زبان کے بجائے بین الاقوامی زبان استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے بہت سے میرے جیسے کم پڑھے لکھے لوگ ان کی باتوں کا مطلب تک نہیں جانتے اس لئے ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ جتنا ہو سکے اپنی زبان کو استعمال کریں کیونکہ ہم اپنے ملک کے لوگوں کے بارے میں سوچیں
خودی کو کر بلند اتنا ہر تقدیر سے پہلے
خدابندے سے خود پوچھے بتا تیری راضا کیا ہے
ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی پہچان یعنی اپنی زبان کو فروغ دیں جس سے ہمیں اپنے ملک کی افادیت اندازہ ہو جس سے ہم اپنی پہچان دنیا کے نقشے پر خود پیدا کریں جب تک ہم اپنے آپ سے پیار نہیں کرتے دنیا کا کوئی بھی شخص ہم سے پیار نہیں کرے گا اسی لئے اپنے آپ کو منوانے کے لئے ہمیں اپنے آپ پر توجہ دینی ہو گی جب ہم اور ہماری گفتگو خوبصورت ہو گی تو خود بخود دنیا ہماری مٹھی میں ہو گی کیونکہ لوگ ظاہری چمک دیکھتے ہیں چمکنے والا نہیں اور نہ ہی کہ وہ کن حالات سے گزر کر چمکنے کے قابل بنا اس لئے خود کو خود میں فنا کر دو اور اپنی زبان کی تاسیر سے دوسروں کے دلوں پر راج کرو
ابھی تک پاوءں سے چمٹی ہیں زنجیریں غلامی کی
دن آ جاتا ہے آزادی کا آزادی نہیں آتی