میر افسر امان
غیر سرکاری نتائج کے مطابق مرکز اور صوبہ خبیر پختون خواہ میں میں تحریک انصاف نے میدان مار لیا۔ پنجاب میں نون لیگ آگے آگے ہے۔ صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی ۔ کراچی میں ملک دشمن ایم کیو ایم کا صفایا ہو گیا۔ بلوچستان میں ملا جلا رجحان ہے۔یہ نتائج وہی ہیں جس کی بین الالقوامی میڈیا نے بھی پیشگوئی کی تھی۔پاکستان میں بھی تجزیہ کار یہی کہہ رہے تھے کہ اصل مقابلہ تحریک انصاف اور نون لیگ میں ہو گااور تحریک انصاف کا پلڑا بھاری رہے گا۔تین دفعہ وزیر اعظم رہنے والے نون لیگ کے سربراہ نواز شریف صاحب کرپشن کے کیس میں عدالت سے سزا پا کر ایڈیالہ جیل میں بند ہیں۔ ان کی دست راست مریم نواز صاحبہ جس نے اپنے مروجہ نام مریم صفدر کو تبدیل کر کے مریم نواز کر دیا۔ یہ پیپلزپارٹی کی مرحومہ بے نظیر کے بیٹے بلاول زرداری کی روش پر چلتے ہوئے اقتدا ر کی ہوس میں کیا تھا۔ بلال زرداری نے بھی اپنا نام بلاول بھٹو رکھناپسند کیا تھا۔پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین جو کرپشن کے بادشاہ مشہور ہوئے تھے کہ پالیسیوں کی وجہ سے ۲۰۱۳ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی سندھ تک محدود ہو گئی تھی۔ وہ اب بھی سندھ سے باہر نہ نکل سکی۔ عمران خان جس پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں لگا وہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی کرپشن کے خلاف عرصہ دراز سے کام کر رہا تھا۔ ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے اسے امین اور صادق تک کہا۔ پیپلز پارٹی اور نو ن لیگ دونوں پارٹیاں مورثی پارٹیاں ہیں۔بار بار اقتدار میں آکر ملک کے سارے اداروں میں اپنے لوگ بھرتی کیے جنہوں نے ان دونوں پارٹیوں کی کرپش پر پردہ ڈالا۔پاکستان پر ایک طرف ایٹمی قوت اور اسلامی پاکستان ہونے کی وجہ اس کے بین الاقوامی دشمنوں کا دباؤ ہے۔ دوسرے طرف کرپشن نے پاکستان کی عوام کو نڈھال کر دیا ہے۔ اس مسئلہ کو اُجاگر کر کے عمران خان نے اپنی سیاست مضبوط کی۔ جس کا پھل اسے ۲۰۱۳ء کے الیکشن میں ۸۰؍ لاکھ سے زیادہ ووٹ حاصل کر نے اور خیبر پختونخواہ میں اکژیت ملی۔ اب ۲۰۱۸ء کے الیکشن میں مرکز اور خیبر پختون خواہ میں بھی کامیابی سے ملا۔سیاست میں ناپختہ ہونے کی وجہ سے عمران خان پر مشکل قوت بھی آتا رہا۔ اس کی کئی وجوہات تھیں۔ ایک تو عمران خان کسی ایک ایشو پر جم کرنہ رہنا تھا۔ اسی وجہ سے سیاسی مخالفوں نے عمران خان کو مسٹر یو ٹرن خان کہا۔ ایک الزام عمران خان پر طالبان خان کا بھی لگا۔ اس الزام کااگر گہری نظر سے تجزیہ کیا جائے توپاکستان کی ساری محب وطن سیاسی اور مذہبی جماعتیں پاکستان میں اپنی عوام کے خلاف فوجی آپریشن کے خلاف تھیں۔ عمران خان بھی اپنے شہریوں کے خلاف فوجی آپریش کا مخالف رہا۔ یہ تو امریکا تھا کہ جس نے پاکستان کی فوج کو پاکستان کی عوام کے خلاف فوجی آپریش پر مجبور کیا۔ جب بھی کوئی معاہدہ ہوتا تو امریکا اس کی مخالفت کرتا تھا۔عمران خان نے تو خیبر پختون خواہ سے نیٹو سپلائی کو بھی روکے رکھا تھا۔تجزیہ کاروں کے مطابق صوبہ سرحد کے عوام دوسرے صوبوں سے زیادہ سیاسی بسیرت رکھتے ہیں۔ جب پیپلز پارٹی اور قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی کی کولیشن سے خیبر پختون خواہ میں حکومت بنی تو، افغانستان کی جائز طالبان کی اسلامی حکومت کی دشمنی میں صوبے میں فوجی آپریشن کی راہ ہموار کی تھی۔ اس عمل سے خیبر پختون خواہ کے عوام نے عمران خان کو ۲۰۱۳ء میں کامیاب کرایا تھا۔ پھر پانچ سال میں عمران خان اور جماعت اسلامی کی کولیشن حکومت نے دوسرے صوبوں کے مقابلے میں عوام کے لیے اچھے کام کیے۔ جس میں لوکل گورنمنٹ کو نیچلی سطح اختیارات دیے۔ پولیس کے محکمہ کو خیر سیاسی کیا۔صحت کے شعبے میں بھی اچھے کام کیے۔ محکمہ تعلیم میں انقلابی کام کیے۔اس دوران کولیشن حکومت پر کوئی میگا کرپشن کا الزام بھی نہیں لگا۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان کو خیبر پختون خواہ میں عوام نے دوبارا اختیار سے نوازا۔ پاکستان کی عوام میں جیسے عمران خان نے کرپشن کی خلاف آواز اُٹھائی ۔ عوام کو کرپشن کے خلاف شعور بخشا۔ جماعت اسلامی کے علاوہ کسی اور جماعت نے ایسا کام نہیں کیا۔اس میں شک نہیں کہ عمران خان نے اپنے ارد گرد پیپلز پارٹی اور نو ن لیگ کے کرپٹ لوگوں کو جمع کیا۔ اب آگے دیکھتے ہیں کہ وہ ان لوگوں کو کیسے کنٹرول کرتے ہیں۔ عمران خان پر برسوں پہلے ملک کے دانشور شہید حکیم سعید نے اپنی کتاب میں میں خدشہ ظاہر کیا تھا کہ یہودیوں نے عمران خان کی قابلیت اور کرکٹ میں مشہوری کو سامنے رکھتے ہوئے اس کو پاکستان کا وزیر اعظم بنانے کے لیے کام شروع کر دیا ہے۔ جس میں جمائنا خان سے شادی شامل ہے۔ مگر جمائنا خان کے طلاق کے بعد یہ الزام بھی کسی حد تک زائل ہو گیا۔ ایک یہ الزام بھی لگا کہ قوم کی بیٹیوں کو جلسوں میں ناچ گھانے اور بے حیائی پر لگا دیا ہے۔اس الزام میں وزن بھی ہے ۔ سارے گوئیے عمران خان کی تحریک انصاف میں شامل ہو گئے اور ’’ عمران خان دے جلسے وچ نچنے نوں دل کر داہے‘‘ جیسے فحش گانے گائے جاتے رہے۔ عوامی پرئیشر سے آخری دنوں میں جلسوں میں لڑکیوں کے ناچ گانے بند کر دیے گئے۔ یہ ساری باتیں مان بھی لی جائیں تو کرپشن کے ناسور نے جو عوام کے گھائل کیا ہوا تھا اور عمران خان نے عوام کی اس دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا اور نواز شریف کی کرپشن کا آخر تک تعاقب کرتا رہا ۔یہ ہی عمران خان کی کامیابی کا راز ہے۔
ہمارے ملک کا کلچر ہے کہ ہارنے والے نتائج ماننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ ایسی ہی کچھ صور تحال فوراً سامنے آئی کہ نون لیگ، پیپلز پارٹی، ایم ایم اے، متحدہ پاکستان اور تحریک لبیک نے انتخابی نتائج ماننے سے انکار کر دیا۔نون لیگ کی صدر شہباز شریف صاحب نے کہا کہ ووٹر کی توہین برداشت نہیں۔ ایم ایم اے کے مولانا فضل الرحمان صاحب نے کہا کہ دھاندلی شدہ نتائج تسلیم نہیں کریں گے۔پیپلز پارٹی نے کہا کہ الیکشن کمیشن اور نگران حکومت نا کام ہو گئے۔جبکہ دوسری طرف چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ عام انتخابات کے انتظامات سے ۹۹؍ فیصد مطمئن ہوں۔ ضابطہ اخلاق کی خلاف دردیوں کا نوٹس لے لیا ہے۔ پاکستان کے چیف جسٹس نے کہا برقوت انتخابات کا وعدہ پورا کر دیا۔پولنگ انتظامات تسلی بخش قرار دیے۔نون لیگ کے پاکستان کی فوج کے خلاف بیانیہ پر فوج کی ترجمان نے کہا کہ قوم نے بدنیتی پر مبنی ہر قسم کا پروپیگنڈا مسترد کر دیا۔ دنیا نے پاک فوج کے لیے اپنی عوام اور پیار کو دیکھ لیا۔ فوجی نوجوانوں کو پیار دینے پر ہم وطنوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔اُدھر بھارت کے میڈیا نے عمران خان کے خلاف میڈیا مہم شروع کر دی ہے۔ اس پرعمران خان نے کہا کہ نواز شریف نے بھارت کی مدد کی اس لیے بھارتی میرے خلاف بول رہا ہے۔ میری وفعہ داری پاکستان سے ہے۔ پاکستان کے وزرات خارجہ نے کہا ہے پاکستان میں جو بھی انتخابات جیتے دنیا کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ عمران خان ۵؍ حلقوں میں جیت کر ریکارڈ قائم کرنے والے نے کہا میں وزیر اعظم ہاؤس میں نہیں بیٹھوں گا۔ جہاں بھی جس حلقے میں دھاندلی ہوئی ہم اس حلقے کو کھولیں گے۔ امریکا نے کہا کہ پاکستان کے انتخابات کو گیری نظر سے دیکھ رہے ہیں۔
صاحبو! پاکستان کے ازلی دشمن بھارت نے پاکستان کے الیکشن کو ملتوی کرنے کے لیے بلوچستان مستونگ میں خود کش حملہ کروا کر ۱۵۰؍ سے زیادہ بے گناہ پاکستانی شہریوں کو شہید کروا دیا۔ الیکشن کے دن پولنگ اسٹیشن پر حملہ کروا کر پولیس سمیت ۳۲؍ افراد کو شہید کیا۔پولنگ اسٹاف پر حملہ کر کے ۳؍ فوجیوں سمیت ۴ دیگرافرداد اور ۱۴؍ شہریوں کو زخمی کیا۔ الیکشن میں جیتنے والے عمران خان کے خلاف میڈیا مہم شروع کر دی۔اس سے ہمارے سیاست دانوں کو بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور پاکستان سے وفاداری نباتے ہوئے ۔ الیکشن میں جیتنے والی جماعت سے کوآپریشن کرتے ہوئے پاکستان میں حکومت سازی کی مدد کرنے کرنی چاہیے۔ اس سے دشمن کے عزائم ناکام ہوگے ۔پاکستان ترقی کرے گا۔ اللہ ہمارے ملک کو دشم کی بد نظر سے محفوظ رکھے ۔آمین۔