ابو سعد قاسمی
ریسرچ اسکالر ام القری یونیورسیٹی مکہ مکرمہ
ہندوستان میں مسلمان جس تعلیمی اور معاشی پسماندگی سے گزر رہے ہیں وہ جگ ظاہر ہے۔مسلمان بھلے ہی تعداد میں دوسری بڑی اکثریت ہیں مگر تعلیم اور معیشت میں ان کا درجہ ہندوؤں کے سب سے پسماندہ قوموں سے بھی گرا ہوا ہے۔جو طلبہ درمیان تعلیم اپنا تعلیمی سلسلہ ختم کر دیتے ہیں ان کا اوسط بھی دوسروں کے مقابلے میں مسلمان طلبہ میں بڑھا ہوا ہے۔اعلی تعلیم حاصل کرنے والے مسلم طلبہ کا تناسب ناگفتہ بہ ہے۔
ظاہر ہے یہ صورت حال مسلم قائدین، مفکرین اور بہی خواہان کے لئے پریشان کن اور غور و فکر کا میدان ہے۔اس تعلیمی و معاشی فقر کے مقابلہ اور اس راہ میں جہاد کے لئے دانشوران قوم مختلف انداز میں جو کوششیں کر رہے ہیں گرچہ اس کا تناسب آٹے میں نمک کے برابر ہے،مگر جو بھی کوشش جس پیمانہ پر ہو رہی ہے،لائق ستائش اور صد شکر ہے۔
موجودہ صورت حال میں ہمارا لائحہ عمل اور طریق کار کیا ہونا چاہیے؟یقینا یہ ایک غور و فکر کا موضوع ہے۔موجودہ زمانہ میں عصری تعلیم کا رشتہ بلا واسطہ معیشت و معاش سے ہے،اس لئے جب تک تعلیمی پسماندگی دور نہ ہوگی مسلمانوں کے معیشت کا معیار اونچا نہیں ہوسکتا۔
دوسرا المیہ مسلم طلبہ پر فکری یلغار کا ہے۔شہروں میں بسنے والے مسلم طلبہ جن اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں عام طور پر وہ سب عیسائی مشنری یا آر ایس ایس اور ہندو احیا پرست لوگوں کا ہے،جہاں انہیں مذہب اسلام کے بارے میں یاتو کچھ پڑھایا نہیں جاتا،یا اگر پڑھایا بھی جاتا ہے تو اسلامی افکاراور تاریخ کو مسخ کرکے ان طلبہ کو ذہنی طور پر مفلوج کردیا جاتا ہے۔ظاہر ہے اس طرح کے ادارے سے پڑھے ہوئے طلبہ دہریت سے مرعوب ہوتے ہیں اور ان کے اندر کوئی اسلامی شعور نہیں پیدا ہو پاتا،یقینا بہت سے طلبہ مسلم منیجمینٹ اسکول میں بھی زیرتعلیم ہوتے ہیں،مگر ان اسکولوں میں دینی تعلیم و تربیت کا خاطر خواہ نظم نہیں ہوتا،وہ صرف اعلان و اشتہار کی حد تک دینی تعلیم کا لفظ استعمال کرتے ہیں تاکہ دینی مزاج کے حامل افراد اپنے بچوں کو ان کے یہاں داخل کرا سکیں۔
ابھی چند سالوں سے ایک نئی فکر پرورش پا رہی ہےکہ حفظ قرآن کی نعمت سے معمور یا اس عظیم نعمت کے حصول میں وابستہ حفاظ کرام کو حفظ کی تکمیل کے بعد یا دوران حفظ ہی عصری علوم کی تعلیم سے آراستہ کیا جائے۔جو حضرات اس فکر کے حامل ہیں ان کے اخلاص میں کسی شک کی نہ گنجائش ہے اور نہ ہی امت کے مسائل کے حل میں ان کی کاوشوں اور جدو جہد کو کمتر نگاہ سے دیکھا جا سکتا ہے،مگر حفاظ کرام پر یہ محنت کئی سوالوں کو جنم دیتی ہےجن کا جواب ضروری ہے۔راقم الحروف کی ذاتی رائے میں حفاظ کرام اور عصری علوم کے درمیان کوئی وجہ اشتراک نظر نہیں آتا،بلکہ اس کے مفاسد ہی پیش پیش نظر آتے ہیں۔ذیل میں اس موضوع کو چند سطروں میں ترتیب وار ذکر کیا جاتا ہے۔
۔(1)حفاظ کرام کو حفظ کی تکمیل کے بعد اگر عصری علوم کی تعلیم دی جاتی ہےتو کیا عصری تعلیم میں داخل ہونے کے بعد ان کے حفظ کے محفوظ ہونے کی کیا گارنٹی ہو سکتی ہے؟(2)ایسے طلبہ جو صرف حفظ قرآن کئے ہوئے ہیں کیا وہ اسلامی شریعت کی روح سے واقف ہو سکتے ہیں؟تاکہ وہ مستقبل میں اسلامی فکر کے حامل بن سکیں گے،یا وہ صرف حافظ قرآن ہونگے اور دینی علوم سے بمشکل الف ،با سے واقف ہونگے،گویا کہ وہ دینی علوم سے نا واقف اور جاہل ہونگے،تو کیا ایسے حافظ قرآن اور عصری علوم کے ماہر سے ہم امت کے مستقبل کی تبدیلی کے لئے کوئی لائحہ عمل بنا سکتے ہیں؟اور کیا ایسے حضرات ہماری سوسائٹی میں کس حد تک دین کی تبلیغ و اشاعت کا فریضہ تو دور کیا وہ خود اس لائق ہونگے کہ وہ شرح صدر کے ساتھ دین پر عمل کرنے والے ہوں گے؟جب کہ ان کی خود کوئی دینی تعلیم نہیں ہوئی ہے۔(3)حفاظ کرام کو ہی عصری علوم کی تعلیم کے لئے کیوں تختہ مشق بنایا جا رہا ہے جب کہ اس میں ان کے حفظ قرآن جیسی عظیم نعمت کے بھول جانے کا شدید خطرہ ہے،نیز قرآن مجید کو عصری علوم کی تعلیم یا عصری علوم کو صرف قرآن مجید سے کیا رشتہ ہو سکتا ہے؟اور کیا ان دونوں میں کوئی چیز قدر مشترک ہے جس سے ایک دوسرے میں مدد مل سکتی ہے؟
خلاصہ کلام یہ ہے کہ حفاظ کرام کو مین اسٹریم میں لانے کے لئے جو تگ و دو جاری ہے اس میں جہاں قرآن کریم کی بے حرمتی،حفظ کے بعد اسے بھلا دینے کی وعید کا مستحق قرار پانا جیسے نقصانات ہیں جن سے صرف نظر کرنا نا ممکن ہے،نیز اس میں ان طلبہ کا وقت بھی زیادہ لگتا ہے، بایں طور کے جو وقت انہوں نے حفظ قرآن میں لگایا،اگر وہ شروع سے عصری علوم میں لگاتے تو ان کا تعلیمی معیار بھی بلند ہوتا اور ان کا وقت بھی کم لگتا۔چنانچہ اگر حافظ قرآن پر ہی محنت کرنی ہو تو اگر انہیں حفظ قرآن کے بعد کچھ دینی تعلیم دے دی جائے پھر ان کو عصری تعلیم سے آراستہ کیا جائے تو شاید کسی درجہ میں یہ صورت قابل قبول ہو سکتی ہے۔
یہاں اس بات کی طرف اشارہ بھی ضروری ہے کہ قرآن کریم کتاب ہدایت،اسلامی قوانین کا مرکز اور اسلام کے تشریعی مصادر میں اول درجہ میں ہے،جس سے براہ راست اسلامی احکامات کا استنباط کیا جاتا ہے۔حافظ قرآن شخص اگر اچھا عالم بنتا ہے تو اس کا فائدہ دوگنا ہو جاتا ہے،جہاں اس کی نظر قرآنی آیات پر ہوتی ہے،وہیں وہ اپنی عربی صلاحیت کے مطابق فہم قرآن،استدلال بالقرآن اور تدبر قرآن جیسی اہم خصوصیات کا حامل ہو سکتا ہے۔ہندوستانی علماء میں ایسے علماء کی تعداد بہت کم ہےجو قرآنی آیات سے بکثرت استدلال کرتے ہوں،اور آیات قرآنی ان کے زبان زد ہوجب کہ اس کے برعکس مصر اور عالم عرب کے علماء کی عام طور پر یہ خصوصیت دیکھی گئی ہے کہ وہ آیات سے بکثرت استدلال کرتے ہیںاور ان کا قرآن سے خصوصی تعلق نظر آتا ہے،اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ وہاں کے علماء اچھے عالم کے ساتھ ساتھ اچھے حافظ قرآن بھی ہوتے ہیں،اسی لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ حفاظ کرام کو اچھا عالم بنایا جائے تاکہ وہ اپنے حفظ قرآن کا استعمال فہم قرآن اور تدبر قرآن میں کرسکیں۔اگر اچھا عالم نہ بھی بن سکے تو کم ازکم اتنی دینی تعلیم ہوجائے کہ وہ اردو کتابوں کے مدرسے میں اسلامی احکامات کے مطابق اپنی زندگی گزارنے والا بن جائے۔
اگر ہم موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کی تعلیمی و معاشی ترقی کی خواہش رکھتے ہیں تو ہمیں مختلف محاذ پرکام کی ضرورت ہے۔سب سے پہلی ضرورت ایسے اسکولوں کے قیام کی ہے جہاں ابتدائی مرحلہ سے معیاری تعلیم کے ساتھ دین کا بنیادی علم اور زیادہ سے زیادہ اسلامی افکار و تہذیب کی تربیت پر توجہ دی جائے،ایسا نہ ہو کہ ہم مدارس کے حفاظ طلبہ کو اپنا نشانہ بنائیںاور انہیں عصری علوم کی طرف راغب کریں،بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم سماج کے وہ نو نہالان جو مدرسہ میں نہیں پہونچ پاتے ہیں اور نہ ہی اسکول کا رخ کر پاتے ہیں،ان میں تعلیم کی روشنی پھیلائیں اور ان پر ایسی محنت کی جائے کہ وہ مستقبل کا سرمایہ بن جائیں ،اگر حفاظ کرام کو مین اسٹریم میں لانا ہے تو حفاظ کرام کو حفظ کے بعد دینی علوم کا مختصر مدتی کوئی کورس کراکر پھر انہیں عصری تعلیم کا مشورہ دیا جائے تاکہ وہ حافظ قرآن کے ساتھ قرآن کے بنیادی احکامات پر چلنے والے بھی بن جائیں۔
حفاظ کرام کے مقابلہ میں اگر علماء اور فضلاء مدارس دینیہ پر محنت کی جائے، ان کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ عصری درسگاہوں میں عصری انداز میں دین کی تعلیم دے سکیں،اسلامی افکار کی ترویج کرسکیں تو یہ زیادہ نفع بخش ہو سکتا ہے،اگر فضلاء مدارس کو مختصر مدتی کورس، اسکول منیجمینٹ،ادارتی امور،صحافتی اموراورتجارتی سرگرمیاں جیسے فنون کی ترتیب دی جائے تو وہ یقینا ایک اچھا اسکول،اچھے تعلیمی ادارے شروع کر سکتے ہیں،جو یقینا موجودہ صورت حال میں امید کی کرن بن سکتے ہیں۔
وہ تمام تعلیمی ادارے چاہے وہ کسی بھی مشنری کے تابع ہوں ،ان میں مسلم بچوں اور بچیوں کے لئے اپنے خرچ پر دینی علوم کی تعلیم کا نظم کیا جائے تاکہ وہ طلبہ جو ان اسکولوں میں پڑھتے ہیں ان کے اسلام کی حفاظت ہو سکے اور وہ دل و جان سے مسلمان بن سکیں،اور اسلامی تہذیب و تمدن کے وہ نمائندہ بن سکیں۔