تحریر۔۔۔ میر افسر امان
ہم عمران خان کی سیاست کے مخالف رہے ہیں۔کا لم بھی لکھا تھاکہ ’’عمران خان یہ کرکٹ نہیں سیاست ہے‘‘ عمران خان نے ۲۰۱۳ء میں اسی لاکھ ووٹ لے کر نواز شریف کے مقابلے میں دوسرے نمبر پر تھے۔ مگر سیٹیں پیپلز پارٹی نے زیادہ نکالی ۔اس لیے پیپلز پارٹی کے قومی اسمبلی ممبرجناب خورشید علی شاہ صاحب لیڈر آف دی اپوزیش منتخب ہوئے۔ سچی بات یہ ہے کہ انہوں ے لیڈر آف اپوزیش کا حق ادا کیا۔اسمبلی کو پورا وقت دیا۔مسائل پر دلیرانہ بحث کی۔ اپنی پارٹی کی پالیسیوں کا دفعہ کیا۔ عمران خان کو ایک اُبھرتی سیاسی پارٹی کے سربراہ تھے ۔ جن کے شان وشان تھا کہ وہ پارلیمنٹ کو وقت دیتے اورمسائل پر بحث کرتے۔ اپنی پارٹی کا نکتہ دھرنے کی بجائے پارلیمنٹ میں پیش کرتے۔ انہوں نے الیکشن کے فوراً بعد دھاندلی کا وا ویلہ کیا۔ سیاسی اختلافات کو سڑکوں چوراؤں پر لائے۔ساتھ کینیڈا میں مقیم سیاست سے نابلدعلامہ طاہر قادری صاحب کو ملایا۔ قادری صاحب نے اپنے کارکنوں کے جذبات کو اُبھارا اور نتیجتاً نون لیگ کی سفاکیت کی وجہ سے ان کی جماعت کے ۱۴ ؍ کارکن شہید ہوئے سیکڑوں زخمی ہوئے۔عمران خان نے پاکستان کی احتجاجی تاریخ میں طویل ترین دھرنا دیا۔سچی بات تو یہ ہے کہ عمران خان اور تحر یک انصاف کے کارکن تھک گئے تھے۔ اسی طرح قادری صاحب کے برسوں سے قائم ایجوکینشن سیٹ اپ جس میں ان کے اسکولوں ،کالجوں اوریونیورسٹوں کے اور کچھ عام کارکن تھے بھی تھک ہار گئے تھے۔ قادری صاحب نے دھرنے کے دوران قبریں کھدوا دیں۔ خود اور کارکنوں کو کفن پہنا دیے۔ کارکنوں سے کہتے رہے انقلاب اب آیا انقلاب اور کل آیا۔ کیا بغیر سالوں کی محنت کے ایسے جذبات اُبھار کر کہیں انقلاب آیا ہے؟ ان الفاظ کی وجہ سے قادری صاب میڈیا میں چٹکی انقلاب کے بانی کے لقب سے یا دکیے جاتے تھے۔ قادری صاحب نے دھرنے سے کچھ حاصل کیے بغیرعمران خان سے پہلے ہی اپنے خیمے اُکھاڑ لیے اور واپس اپنی جگہ پر چلے گئے۔ در اصل عمران خان بھی تھک گئے تھے ۔ یہ تو پشاور کے آرمی پبلک اسکول کے دلخرائش واقعہ جس میں تحریک طالبان پاکستان کے وحشی سربراہ مولا فضل اللہ کے دہشت گردوں نے محصوم بچوں کو بے دردی سے شہید کیا ،کا بہانہ تھا۔ اس واقعہ کے بعد عمران خان نے فیس سیونگ کے لیے فوراً دھرنہ ختم کیا۔ دھرنے کو ختم کرانے کے لیے اور ان ہی دنوں پاکستان کے صدا بہار دوست چین کے صدر کے دورے کی وجہ سے نون لیگ نے عمران خان کے سارے مطالبات مان لیے تھے۔ صرف ایک مطالبہ جس میں نواز شریف کے استعفیٰ کا مطالبہ نہیں مانا تھا۔ اگر عمران خان میں ذرا سی بھی سیاسی سوج بوجھ ہوتی تو نون لیگ نے نواز شریف کے استعفیٰ کے علاوہ سارے کو تسلیم کر کے دھرنا ختم کر دیاتو زیادہ سیاسی فاہدہ ہوتا۔ عمران خان کے دھرنے کی وجہ سے ملکی معیشت کوکافی نقصان پہنچا۔پاکستان کی معیشت کو زیادہ نقصان نواز لیگ کے میگا پروجیٹ کی وجہ سے بھی ہوا۔ نواز شریف نے اربوں روپے میٹرو بس اور اورنج ٹرین کی نظر کر دیے۔بجلی اور گیس کی فوری دستیابی پر دھیان نہیں دیا۔ اس سے پاکستان کے کارخانے بجلی اورگیس اور کی کمی کی وجہ بند ہو گئے۔اب آخر میں بجلی اور گیس کی کمی پوری ہوئی۔ مگر اس وقت تک پاکستان کی معیشت بیٹھ چکی تھی۔ اس کے آثار ہمیں نون لیگ کے اقتدار ختم ہوتے ہی نظر آنے لگے اور اب کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔ عمران خان نے اپنے جلسوں کو کامیاب کرنے کے لیے بے حیائی ک اور ناچ گانے کو کھلی چھٹی دی رکھی۔ جلسوں میں خواتین کے حصہ میں نوجوان لڑکوں کے داخل ہونے، چھیڑ چھاڑ کرنے اور شرارت سے ماحول خراب ہانے لگا توپھر خار دار تاریں لگانی پڑیں۔ یہ عمران خان کی سیاسی غلطی تھی۔ بعد میں پبلک کے پریشئر پر جلسوں میں ناچ گانے بند کر دیے گئے۔ تحریک انصاف کرپشن کے خلاف کامیاب تحریک چلا رہی تھی۔ اس کی وجہ سے نواز شریف ،ملک کی اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے تا عمر نا اہل قرار پائے۔ پارٹی صدارت سے ہٹائے گئے۔ بلاآخرسزا پا کر ادیالہ جیل میں اپنی بیٹی اور داماد کے ساتھ بند ہو گئے۔ اس دوران عمران خان پیپلز پارٹی اورنون لیگ کے کرپٹ لوگوں کو ساتھ ملایا۔ اعتراض پر کہا کہ یہ لوگ الیکٹبلز ہیں۔ ان کو ساتھ ملا کر ہی الیکشن جیتا جا سکتاہے۔ پاکستان کے عام لوگوں نے اعتراض کیا اور کہا کہ عمران خان خود تو کرپشن سے پاک ہیں مگر ان کے ارد گرد کرپٹ لوگ جمع ہو گئے۔ یہ بھی عمران خان کی سیاسی غلطی تھی۔
پھر عمران خان کی جیت کیسے ہوئی۔ وہ اس طرح کہ عوام کرپشن کی ماری ہے۔ کرپشن کی ہی وجہ سے مہنگاہی ہے۔ نوکریاں نہیں ملتیں۔لوڈشیڈنگ ہے۔ کرپشن کے پیسے سے دہشت گردوں کو دہشت پھیلانے کا موقعہ ملتا ہے۔ عوام نے عمران نے کی مندرجہ بالا سیاسی غلطیوں کو صرف نظر کیا۔ عمران خان کی سب سے بڑی دانشمندی کرپشن کے خلاف مہم کو عوام نے سامنے رکھا اور عمران خان کو جتایا۔پنجاب کے ہر گھر کا کوئی نہ کوئی فرد فوج میں ملازم ہے۔ وہ کس طرح فوج کے خلاف نواز شریف کے بیانیہ کو مانتے۔اس میں س عمران خان کی جیت اور نواز کی ہار کا دخل ہے۔ خیبرپختون خواہ میں پرویز خٹک کی اچھی حکمرانی تھی۔ جس میں پولیس کوسیاست سے پاک کیا۔ تعلیم میں بہتری لائی گئی۔ پارئیویٹ
اسکولوں سے بچوں کو نکال کر گورنمنٹ اسکولوں میں داخل کیا گیا۔صحت میں بہتری لائی گئی۔ افغانستان کے طالبان کے روحانی مدرسہ اکوڑا خٹک کو کروڑوں کی امداد سے بھی پختونخواہ کی عوام عمران خان سے خوش تھی ۔ دوسری طرف ایم ایم اے کے سربراہ مولانا فضل ارحمان صاحب کا افغان طالبان کے خلاف رویہ اور فاٹا کو خیبرپختونخواہ میں ضم کرنے کی مخالفت کی وجہ سے بھی کم ووٹ ملے اور مولانا تیس برس بعد پہلے دفعہ شکست سے دو چار ہوئے۔بلوچستان میں نون لیگ کے خلاف گروپ کی حمایت کی وجہ سے بلوچستان میں عمران خان کی اتحادی حکومت قائم ہو گی۔ سندھ میں بھی پہلے کے مقابلے میں عمران خان نے کافی سیٹیں حاصل کیں۔جو بھی ہوا جیسے بھی ہوا۔عمران خان مرکز، خیبرپختوں خواہ،پنجاب میں میں حکومت بنانے کے قابل ہو گئے۔ بلوچستان میں عمران کی اتحادی حکومت بننے کے امکانات ہیں۔ساری سیاسی جمائتوں نے الیکشن کو نہیں مانا۔ یورپی یونین،دولت مشترکہ،بھارت کے الیکشن کمیشن کے سیکٹری اور فافن نے الیکشن فری اور آزادانہ ہونے کی تصدیق کی۔ پاکستان کی سابقہ راویت کے مطابق ہارنے والی ساری پارٹیوں نے الیکشن میں دھاندلی کی بات کی۔ اے پی سی میں تحریک چلانے کے منصوبے بنائے۔مگرجیت کے بعد عمران خان نے جو تقریر کی ہے وہ بالغ نظری پر مبنی ہے۔ عمران خان کو حکومت بنانے دیں۔ اس نے جو مدینہ کی فلاحی حکومت بنانے کی کوشش کا وعدہ کیا ہے اس پر عمل کرنے کا موقعہ ملنا چاہیے۔ اللہ کرے عمران خان کی جیتنے کے بعد تقریر کے مطابق ان ہی کے ہاتھوں ہمارے ملک میں قائد ؒ کے وژسن کے مطابق مدینہ کی فلاحی حکومت قائمس ہو۔ آمین۔