امید سحر،ملی مسلم لیگ

Published on August 2, 2018 by    ·(TOTAL VIEWS 296)      No Comments

تحریر:راشد علی راشد اعوان
انتخابات2018ملکی سطح پرایک سیاسی تبدیلی کا عمل تھاجو الحمد اللہ پایہ تکمیل کو پہنچ چکا ہے،حالیہ انتخابات میں کئی نامی گرامی سیاسی شخصیات اس جمہوری عمل کے ذریعے خود کو منوانے میں ناکام رہی ہیں اور پارلیمان میں اپنی جگہ بھی نہیں بنا سکیں،کچھ جماعتیں اور شخصیات اس سارے انتخابی عمل کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں تو کچھ نے تو سر خم تسلیم کر لیا ہے،ملکی تاریخ کے گیارہویں عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کو مرکز میں اکثریت حاصل ہے اور حکومت سازی کیلئے وہ ابھی مشاورتی عمل سے گزر رہی ہے،حالیہ2018کے انتخابات میں نئی معرض وجود میں آنے والی دو سیاسی جماعتیں تحریک لبیک پاکستان اور ملی مسلم لیگ خاص توجہ کا مرکز رہی ہیں،تحریک لبیک پاکستان ملکی حالات کے پیش نظر اپنا منشور اور ایجنڈا لیکر میدان میں اتری جبکہ ملی مسلم لیگ نے ملک عزیز پاکستان میں عالمی سازشوں،نظریہ پاکستان کیلئے بجنے والی پرخطر گھنٹیوں اور اپنوں کے روپ میں بیگانوں کے اشاروں پر کام کرنے والوں کے بھیانک کردار بھانپ کر اپنے آپ کو اس وقت عوام کے سامنے پیش کیا جب پوری دنیا خاص کر مغربی طاقتیں کسی طور پر بھی حافظ محمد سعید اور ان کی جماعت ملی مسلم لیگ کے وجود کو تسلیم کرنے سے ہی انکاری تھیں،انتخابات سے قبل امریکی صدرکا واضح اعلان تھا کہ وہ یعنی امریکہ حافظ محمد سعید سے جڑے کسی بھی رشتے کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہے، ٹرمپ انتظامیہ نے اس حوالے سے کڑی نگرانی شروعکی ،امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ ملی مسلم لیگ اور تحریک آزادی کشمیر لشکر طیبہ کی شاخیں ہی ہیں اس لیے ان دونوں جماعتوں کو بھی فارن ٹیرارسٹ آرگنائزیشن کے امیگریشن اینڈ نیشنلٹی ایکٹ کی سیکشن 219 اور دہشت گردوں کی عالمی فہرست کے ایگزیکٹو آرڈر 13224 کے تحت لشکر طیبہ میں ہی شامل کرلیا گیا ہے،اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے سماجی رابطے کی ویب سایٹ ٹویٹر پر اپنی ٹویٹ میں واضح کیاتھا کہ ملی مسلم لیگ (ایم ایم ایل) کو پاکستان میں سیاسی جماعت کے طور پر رجسٹرڈ کرنے پر انہیں تحفظات لاحق ہیں اس لیے اس جماعت کو رجسٹرڈ نہ کیا جائے اور بدقسمتی سے پاکستان کے الیکشن کمیشن نے بھی غیر ملکی صیہونی طاقتوں کا دباؤ قبول کیا اور ملی مسلم لیگ کی رجسٹریشن کے عمل کو طوالت در طوالت دیتے چلے گئے،انتخابات2018میں ملی مسلم لیگ کا راستہ روکنے کیلئے انتہائی اقدام تک اٹھائے گئے مگر ملی مسلم لیگ کے قائدین حافظ محمد سعید اور ان کے رفقاء عظیم نے انتہائی تدبر،حکمت اور دور اندیشی کا مظاہرہ کیا اور اللہ اکبر تحریک کے پلیٹ فارم سے اپنے امیدوار میدان میں اتارے،پورے ملک سے 300سے زائد امیدوار ملی مسلم لیگ کے حمایت یافتہ پلیٹ فارم سے سامنے آئے اور یوں چند ماہ کی نومولود سیاسی جماعت نے انتخابات کے پہلے ہی مرحلے میں اپنی حیثیت منوا کر دشمنانان اسلام اور دشمنان پاکستان پر لرزہ طاری کیا،ملی مسلم لیگ کے حمایت یافتہ امیدوار جس نظریہ اور کاز کیساتھ میدان میں آئے وہ ایک ایسی حقیقیت ہے جس کے بیان اور سمجھنے کی ہر پاکستانی کو ضرورت ہے،وطن عزیز میں انتشاراور فساد کی چنگاریاں برپا کرنے والے غیر ملکی عناصر پوری طرح برسر پیکار ہیں اور ایسے عناصر کو مکمل محاسبہ،ان کا راستہ روکنے اور ان کے کرداروں سے پردہ اٹھانے کا فن اللہ کریم نے ملی مسلم لیگ جیسی مدبر اور محب الوطن سیاسی جماعت کو ودیعت کر رکھا ہے،راقم الحروف بھی ملی مسلم لیگ کا حلقہ پی کے-30سے حمایت یافتہ امیدوار تھا اور راقم الحروف نے بھی اپنی انتخابی مہم میں نظریہ پاکستان اور درپیش ملکی حالات اور چیلنجز کو سامنے رکھا،پورے ملک سے ساڑھے پانچ لاکھ ووٹ حاصل کرنے والی ملی مسلم لیگ اس نظریہ کو اجاگر کرنے میں کامیاب رہی ہے جو عالمی صیہونی طاقتوں کو کھٹک رہا تھا،ایسی جماعت اور ایسے نظریات رکھنے والوں کو ایک آنکھ بھی نہ بھانے والے اب اپنی خاموشی توڑ کر یہ اعتراف کر رہے ہیں کہ ملی مسلم لیگ پاکستانی عوام کے دلوں میں دھڑکنے والی وہ سیاسی جماعت ہے کہ جس کا مستقبل تابناک ہے،ملی مسلم لیگ کا نظریہ ہی یہی ہے کہ نظریہ پاکستان کے دو الفاظ کو اگر ایک لفظ میں ادا کرنا ہو تو وہ اسلام ہے،گاندھی اور نہرو کی مطالبہ پاکستان کے خلاف دلیل یہ تھی کہ تبدیلی مذہب سے قوم تبدیل نہیں ہوتی نیشنلسٹ علماء بھی یہی نقطہ نظر رکھتے تھے کہ قوم وطن سے بنتی ہے مذہب سے نہیں لیکن علامہ اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح دونوں کا پرزور موقف یہ تھا کہ مسلمان اپنے الگ مذہب کی بنیاد پر ایک جداگانہ قوم ہیں، گویا جتنی چاہے بحث اور تجزیہ کر لیں تحریک پاکستان کی بنیاد اسلام ہے، اسلام ہی نے بحثیت قوم ہمیں قیام پاکستان کے مخالفین کے مقابلہ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنا دیا تھا، قائد اعظم ؒ کے مشہور سلوگن ایمان، اتحاد اور تنظیم پر ہی غور کر لیں کہ ایمان کی طاقت نے ہمیں متحد کیا،ہم ایک قوم بنے اور ہم اپنے لئے ایک الگ علاقہ، مملکت اور وطن حاصل کرنے میں کامیاب ہو ئے،بانی پاکستان حضرت قائد اعظم ؒ کا فرمانا تھا کہ ’’پاکستان اسی دن وجود میں آگیا تھا جب ہندوستان میں پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا، مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمہ توحید ہے، وطن اور نسل نہیں‘‘، قیام پاکستان کی نظریاتی بنیاد کے جو دشمن یہ اظہار خیال کرتے ہوئے نہیں تھکتے کہ قرار داد لاہور میں اسلام کا حوالہ موجود نہیں اور نہ ہی قیام پاکستان کے بعد نفاذ اسلام کا کوئی عزم و ارادہ ظاہر کیا گیا تھا، کیا قائد اعظم ؒ نے کلمہ توحید کے حوالہ صرف ہندوستان کا جغرافیہ تقسیم کرنے کے لئے دیا تھا، قائد اعظمؒ نے اسلام کو پاکستان کا جذبہ محرکہ اور وجہ جواز بھی قرار دیا تھا، حیرت کی بات ہے کہ ایک ایسا ملک جس کا حقیقت کی دنیا میں تو کیا خواب میں بھی وجود نہ تھا، صرف اسلام نے دنیا کے نقشے کو تبدیل کر کے اس نئے ملک کی بنیاد رکھ دی اور ساتھ ہی دنیا میں ایک نئی مثال قائم ہو گئی کیوں کہ صرف مذہب کے نام پر ہندوستان تقسیم ہوا تھا، سیکولر ازم کا ڈھول بجانے والے اگر اس دور کے ہندو اخبارات میں ہندو سیاست دانوں کے بیانات پڑھ لیں تو انہیں علم ہو جائے گا کہ ہندو طبقہ پاکستان کی مخالفت ہی اس وجہ سے کر رہا تھا کہ وہ پاکستان کے مطالبہ کو اسلام ازم کی ایک کڑی سمجھتے تھے،قیام پاکستان کا مقصد تھا کہ یہاں اللہ کے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل ہونے والی اللہ کی آخری اور جامع کتاب قرآن کریم کے اصولوں کے مطابق نظام حکومت قائم کیا جائے گا، قائد اعظمؒ کے فرمودات کہ’’اس حقیقت سے ہر شخص واقف ہے کہ قرآن مسلمانوں کا بنیادی اور مکمل ضابطہ حیات ہے، جو معاشرت، مذہب، تجارت، عدالت، فوجی امور، دیوانی، فوجداری اور تعزیرات کے ضوابط کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے‘‘۔ قائد اعظم نے مسلمانوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ حکم بھی یاد کروایا کہ ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ قرآن حکیم کا ایک نسخہ اپنے پاس رکھے تاکہ وہ اس سے اپنے لئے رہنمائی حاصل کر سکے،حضرت قائد اعظمؒ نے بڑے واضح اور دو ٹوک انداز میں یہ بھی فرمایا تھا کہ ’’پاکستان سے صرف حریت اور آزادی مراد نہیں اس سے فی الحقیقت مسلم آئیڈیالوجی مراد ہے جس کا تحفظ ضروری ہے‘‘قائد اعظمؒ کے بعد حافظ محمد سعید ہی اب وہ محب وطن پاکستانی ہیں جو کہ بقائے پاکستان کی جنگ لڑ رہے ہیں ،وہ پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کی تگ و دو میں ہیں جو یہ برملا اظہار کرتے ہیں کہ14 اگست 1947 ء کے دن اللہ رب العزت کے خاص فضل و کرم سے ایک آزاد خود مختار، اسلامی فلاحی ریاست، پاکستان کامعرض وجود میں آنا بلاشبہ عوام پاکستان کے لیے قدرت کا ایک بہت بڑا انعام ہے، آج سلام دشمن اور پاکستان دشمن عناصر تو پاکستان کے خلاف متحد نظر آتے ہیں مگر ہم اہل پاکستان مختلف فرقوں، قوموں، اور گروہوں میں بٹے ہیں، آج ہمارے درمیان باہمی اتفاق و یکجہتی کا فقدان ہے،پاکستان کی بہادر افواج اہل پاکستان کو امن و امان کی فراہمی کی خاطر برسر پیکا ر ہے، عوام پاکستان کے سکون کی خاطر آئے روز افواج پاکستان کے سپاہی جام شہادت نوش کررہے ہیں، آج ہم اہل پاکستان کو باہمی تنازعات اور فرقہ بندیاں، صوبائی و علاقاوی تعصب کو بھلا کر پاکستان کو امن و امان کا حامل ایک مضبوط و محفوظ ملک بنانا ہے اور ملی مسلم لیگ ان ہی کوششوں کی امین سیاسی جماعت ہے جس کا نظریہ بھی پاکستان ہے اور جس کی سیاست بھی بقائے پاکستان ہے،ملک کے اندر انتشار پھیلانے اور غیر ملکی ایجنڈے پر دوڑنے والوں کے عزائم خاک میں ملانے والوں کیلئے بلاشبہ نظریہ پاکستان کی امین ملی مسلم لیگ برسر پیکار ہے ،اللہ نے چاہا تو ملی مسلم لیگ کا مستقبل روشن و تابناک ہے،انشاء اللہ

Readers Comments (0)




Weboy

Premium WordPress Themes