تحریر۔۔۔مہر سلطان محمود
ضلع قصور کی تاریخ میں پہلی بار ’’قصور رپورٹ کارڈ ‘‘کے عنوان سے ایک مہینے میں دو بار مسائل اور انتظامیہ کی کارکردگی کو تفصیلی طور پر زیر بحث لایا جائے گا اس میں اخبارات کی خبریں اور ضلعی انتظامیہ کی پریس ریلیز کے علاوہ مختلف سروے رپورٹس شامل ہوں گی تقریبا تمام اداروں کی کارکردگی کے علاوہ سیاستدانوں کے عوام سے کیئے گئے وعدوں کا بھی جائزہ لیا جائے گا وعدے وفاء ہوئے یا وعدوں کے دعوے ہی رہے ۔اس تجزیئے میں غیرجانبد اری کو مدنظر رکھنا اولین ترجیح ہوگی تاکہ عوام اور انتظامیہ کا باہم مربوط رابطہ رہے عوامی آگاہی کو یقینی بنایا جائے گا بنیادی مسائل کو حل کروانا ضلعی انتظامیہ کی ذمہ داری ہوتی ہے اس میں ایک چیئرمین سے لیکر ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر شامل ہیں ۔امن و امان کی صورتحال بھی انتہائی مخدوش ہے چاجائیکہ کہ موجودہ ڈی پی او ڈسپلن قائم کرنے کیلئے سزائیں بھی دے رہیں جرائم میں شدید تر اضافہ ہوچکا ہے ۔
بنیادی مسائل میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی ،صفائی ستھرائی ،ہسپتالوں کی حالت زار ،اشیائے خوردونوش کا میعار و قیمتوں پر چیک اینڈ بیلنس سلاٹرز ہاؤس کا معائینہ ،عوام کو اعلیٰ کوالٹی کے گوشت کی مناسب قیمت پر فراہمی ،سرکاری سکولوں و کالجزکی حالت زار ،بیت المال ،عشر و ذکوۃ کمیٹیوں کی کارکردگی قانون نافذ کرنیوالے تمام اداروں کی کارکردگی کا جائزہ انصاف ملتا ہے ارزاں یا بکتا ہے ارزاں ۔عوام معمولی کاموں کیلئے کسطرح ذلیل و خوار ہوتی ہے اور سیاستدانوں سمیت افسران کو عوامی مشکلات کا احساس کتنا ہوتا ہے عرصہ دراز سے مختلف سیٹوں پر تعینات افسران و اہلکاران کسطرح کماؤ پتر بنے سرکاری پالیسی تین سال مدت ملازمت پر عملدرآمد کیوں نہیں ہوتا یا کراویا کیوں نہیں جاتا ہے معمولی اہلکاران و افسران کیسے غیر معمولی جائیدادوں اور بنک بیلنس کے مالک بنے پتہ ہونے کے باوجود متعلقہ افراد کے خلاف کاروائی کیوں نہیں ہوتی یا شکایات کو کیوں سرد خانے کی نظر کردیا جاتا ہے مختلف پٹواریوں کو متعدد بار ایک ہی جگہ کیوں تعینات کروایا جاتا ہے اس کے پیچھے ذمہ داران کی دلچسپی کیا ہے اصل محرکات کیوں چھپائے جاتے ہیں رجسٹری محرر کس کی ایماء پر عوام سے جگا ٹیکس وصول کرتے ہیں پتہ ہونے کے باوجود ان خلاف کاروائی کرنے میں آخر کونسی رکاوٹ یا خوف ہے جو اس دھندے کو چلنے کی اجازت دے رکھی ہے ۔
گڈ گورننس کا ڈھول ذمینی حقائق کو پس پشت ڈال کر الفاظ کے گورکھ دھندے سے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتا ہے بدقسمتی ضلع قصور کی یہ ہے کہ ڈپٹی چیئرمین سینٹ ،دو وزرائے خارجہ ،وزارت اعلیٰ ،متعدد وزراتوں کے قلمدان ، چیف سیکرٹری کی طاقتور سیٹ، دس سالہ پنجاب اسمبلی کی ا سپیکر شپ اور حکومت پنجاب کی ترجمانی ماسوائے اپنے مفادات کے عوام کے بنیادی مسائل یکسر نظرانداز کرنے میں فخر محسوس کرتی رہیں ہیں چاہیے تو یہ تھا کہ ایک آدھ یونیورسٹی کا سب کیمپس اور لاہور کے جنرل یا جناح ہسپتال جیسا ہسپتال ہی مل جاتا تو شاید قصور کی تاریخ میں الفاظ بھی مورخ بغیر شرمندہ ہوئے لکھ سکتا میرے عوامی نمائندے فخر ضلع قصور ہیں ۔
رہی بات بیوروکریسی کی تو ان کی پانچوں گھی میں لفظوں میں خود کو نوکر کہلوانے والے مطعلق النعان بادشاہ بن کر اپنا حصہ بقدر جثہ وصول کرنے میں زرا بھر بھی نہیں ہچکچاتے ہیں مختصرا عرض ہے کہ ماسوائے ایک آدھ آفیسر کے قصور شہر کو کسی نے سنوارا نہیں ہے سالہا سال تعینات رہنے والے افسروں نے دل کھول کر قصور شہر و ضلع کے وسائل سے اپنے بنک بیلنس میں اضافہ کیا چند ایک قلمکاربولتے رہے مگر اکثریت اپنے مفادات کے حصول کو ہی مقدم سمجھ کر ہنڈیاء سے نوالہ ملنے پر شاداں دکھائی دیئے آج قصور شہر مسائل کا شکار ہے اس کے مجرمان بیوروکریسی اور سیاستدانوں ہیں بلدیاتی سسٹم سے پہلے تمام تر اختیارات کا سرچشمہ ایڈمنسٹریٹر یعنی ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر و اسسٹنٹ کمشنر حضرات تھے جنہوں نے بے دردری سے بھی بڑھ کر عوامی خزانے کے منہ صرف اپنی طرف کھولے ضلع قصور کی تمام میونسپل کمیٹیاں شدید تر مسائل کا شکار ہیں نااہل نکمے چہتے وکرپٹ ملازمین و افسران نے سیاسی اثرورسوخ سے اپنے تئیں سمیٹا ہے تحصیل کوٹ رادھاکشن میں ایک کلرک عرصہ اگیارہ سال ایک منتخب عوامی نمائندے کے سیاسی اثر ورسوخ سے بلدیہ چیف کی سیٹ پر قابض رہا کرپشن کا دوسرا احد چیمہ بن کر آخر بلدیاتی سسٹم آنے پر رفو چکر ہوا اسی طرح کی داستانیں دیگر میونسپل کیمیٹیوں کی ہیں میونسپل کمیٹی پتوکی میں 1990 ء سے لیکر اب تک لاتعداد ترقیاں غیر قانونی طور پر دیکر نوازا گیا ،جونیئر ملازم کو سنیئر سے پہلے اپ گریڈ کردیا گیا نائب قاصد بھرتی ہونیوالے اعلیٰ عہدوں پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں گریڈ 09 سے کیسے چھلاوے کی مانند گریڈ سترہ میں ترقیاں کیسے دی گئیں کتنے ملازمین کی بھرتی کی فائلیں ہی غائب ہیں کتنے ملازمین جعلی تعلیمی ڈگریوں پر بھرتی ہوئے ہیں آخر پر پتوکی میں ہاوسنگ سکیمیں برساتی پھپھوندی کی طرح پھوٹ رہی ہیں ان کوغیر قانونی طریقے سے منظور کرنے کیلئے ٹی ایم اے پتوکی ذمہ داران کتنے کروڑ کمائے اسکی تحقیقات ازحد ضروری ہیں کوٹ رادھاکشن میونسپل کمیٹی کی تقریبا 100 کے قریب دوکانوں کی لیز کی فائلیں سابقہ بلدیہ چیف کی ملی بھگت سے غائب کردی گئیں اس پر بھی اعلیٰ سطح کی انکوائری کی ضرورت ہے چونکہ مسلم لیگ ن کے ہی کچھ لوگ ملوث ہیں ۔
ضلعی انتظامیہ کی کارکردگی کسی بھی لحاظ سے قابل فخر نہیں ہے بس افسران میٹنگ میٹنگ کا کھیل رچا کرسب اچھا دکھا کر اپنی دیہاڑیاں سیدھی کرکے گھروں کو سدھار جاتے ہیں سڑکوں پر تجاوزات کے خلاف آج تک کوئی مستقل پائیدار حل نہیں نکالا جا سکا ہے ٹرانسپورٹ اتھارٹی و پٹرولنگ پولیس تصاویر کی حد تک کارکردگی دکھاتے ہیں حادثات بے شمار دوکاندار سڑکوں کے فٹ پاتھوں پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں مگر اتھارٹی بے بس ہے محکمہ ہیلتھ کاغذات کی حد تک ایکٹیو ڈی ایچ کیووتمام تحصیل ہیڈ کوارٹرز ہسپتال میں جو گل کھلائے جا رہے ہیں پتہ ہونے کے باوجود کوئی کاروائی کرنے کو تیار نہیں جنریٹروں کا فیول فروخت ہونے کے علاوہ افسران کی گاڑیوں میں چلا جاتا ہے ڈیلی ویجز ملازمین کی مد میں چہیتوں کے علاوہ غنڈہ گرد عناصر ذاتی ڈرائیوروں کو قومی خزانے سے حصہ دیا جاتا ہے حقیقی کام کرنیوالوں کو ڈھائی ماہ کی تنخواہیں نہیں دی جاتی ہیں محکمہ ایجوکیشن کرپشن کنگ بن چکا ہے جعلی ڈگریوں کا معاملہ دبائے بیٹھے ہیں کوٹ بڈھا سنگھ سکول کی کرپشن انکوائری ردو بدو کرنے میں ڈی ایم او آفس کے علاوہ ایجوکیشن کے افسران بھرپور زور لگا رہے ہیں اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے ادویات اور پینے کا صاف پانی نہ ہونے سے عوام بیماریوں کا شکار ہوکر لقمہ اجل بن رہے ہیں محکمہ ریونیو کے پٹواری اراضی ریکارڈ سنٹر اور رجسٹری محرر دونوں ہاتھوں سے عوام کی جیبوں کو خالی کرنا اپنا وراثتی حق سمجھتے ہیں خاص کر کوٹ رادھاکشن میں ایک نائب قاصد رجسٹری محرر کی ملی بھگت سے جگا لیتا ہے رجسٹریوں کی سکیننگ کا کام رجسٹری محرر کے بھانجے پرائیوٹ کرتے ہیں یہ ہے سرکار کی گڈ گورننس باقی پھر سہی اگلی قسط میں ۔