تحریر۔۔۔ میر افسر امان
عمران خان اپنی انتخابی مہم کے دوران علامہ اقبالؒ کے خواب اور قائدؒ کے وژن کے مطابق نیا پاکستان بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ اس وژن کو پاکستان کے بانیِ پاکستان قائد اعظم ؒ نے دنیا کے مسلمانوں کے دلوں میں برسوں سے گھر کی ہوئی مدینہ کی اسلامی ریاست کی خواہش کو برصغیر کے مسلمانوں کی جدو جہد کے ذریعے تکمیل کی تھی۔اپنوں کی نادانی یا کم فہمی اور دشمنوں کی سازشوں کو اپنی جمہوری ، اخلاقی اور قانونی جدو جہد کے ذریعے شکست دی تھی۔ اُن کی ساری جدو جہد مسلمانوں کی دنیا کے غالب حصے اور خاص کر برصغیر ہندوستان میں ہزار سالہ( ۱۰۰۰) سالہ شاندار حکمرانی کو سامنے رکھتے ہوئے ترتیب دی ہوئی تھی۔ بانی پاکستان حضرت قائد اعظم ؒ نے قیامِ پاکستان سے پہلے۲۲؍ اکتوبر ۱۹۳۹ ء کو لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کونسل سے خطاب کرتے ہوئے اس طرح بیان کیا’’ مسلمانو! میں نے بہت کچھ دیکھا ہے۔ دولت،شہرت اور آرام و راحت کے بہت لطف اٹھائے اب میری زندگی کی واحد تمنا یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد اور سر بلند دیکھوں ۔میں چاہتا ہوں کہ جب مروں تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مروں کے میرا ضمیر اور میرا خدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی اور مسلمانوں کی آزادی، تنظیم اور مدافعت میں اپنا حق ادا کر دیا میں آپ سے اس کی داد اور صلہ کا طلب گار نہیں ہوں میں یہ چاہتا ہوں کہ مرتے دم میرا اپنا دل، میرا ایمان اور میرا اپنا ضمیر گواہی دے کہ جناح تم نے واقعی مدا فعت اسلام کا حق ادا کر دیا اور میرا خدا یہ کہے کہ جناح بے شک تم مسلمان پیدا ہوئے مسلمان جئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبہ میں اسلام کے علم کو بلند رکھتے ہوئے مرے‘‘۔جب انگریزوں کے سیکولر نظام حکومت کے سحر میں گرفتار لوگوں نے قائدؒ سے معلوم کیا گیا کہ پاکستان کا نظامِ حکومت کیسا ہو گا۔ تو ۲۶؍مارچ ۱۹۴۸ ء چٹاگانگ میں قائد ؒ نے فرمایا تھا’’ اتنا یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ہمارا (مقصدحیات) اسلام کے بنیادی اصولوں پر مشتمل جمہوری نوعیت کا ہو گا ان اصولوں کا اطلاق ہماری زندگی پر اسی طرح ہو گا جس طرح تیرہ سو سال قبل ہوا تھا‘‘ کیا سیاستدانوں نے قائدؒ کے ان الفاظ پر غور فکر کیا؟ قائد اعظم کے یہ الفاظ ان کی اسلام سے وابستگی اور پختگی کا نمونہ ہیں ۔یہ الفاظ ان لوگوں کے منہ پر طمانچہ ہیں۔ جو قائد اعظم ؒ کو سیکولر ثابت کرنے میں ایٹری چوٹی کا زور لگاتے رہتے ہیں۔ قائد اعظم ؒ نے تو اپنی پوری زندگی قیام پاکستان کے لیے کھپا دی اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں پاکستان، مثل مدینہ عطا کر دیا۔ لیکن کیا سیاستدانوں نے قائد اعظم ؒ کے ان الفاظ کی لاج رکھی ہے ؟ آج تک ملک میں اسلام کا بابرکت نظام رائج کیا ہے؟ قائد اعظمؒ کے یہ الفاظ ان کی اسلام سے محبت اور ان کے دینی عقائد اور فکرو نظر کو واضح کرتے ہیں ۔قائد اعظم ؒ نے پاکستان کے اسلامی نظریہ حیات کو قیام پاکستان کے وقت ہی متعین کردیاتھا۔ قائدؒ کی وفات کے بعدقائدؒ کی آل انڈیا مسلم کے ناعاقبت اندیش سیاسی لیڈروں نے قائدؒ کے مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست کے وژن کو پس پشت ڈال دیا۔ وقت پر پاکستان کا آئین بھی نہیں بنایا۔ وزراتوں کے پیچھے پڑے رہے۔ پھرجب پاکستان کا آئین بنا تو فوجی ڈکٹیٹر ایوب خان نے اسے ختم کر دیا۔ مسلمانوں کے پرسنل قوانین میں تبدیلی کی۔ ملک کو سیکولر بنانے کی ناکام کوشش کی۔عوام کے سخت دباؤ پر ڈکٹیٹر ایوب خان نے ایک اور ڈکٹیٹر یخیٰ خان کو اقتدار دے دیا۔ ڈکٹیٹر یخیٰ اور سول ڈکٹیٹر ذالفقار علی بھٹو کی پالیسیوں کی وجہ سے غدار پاکستان شیخ مجیب کو پاکستان توڑنے کا موقعہ ملا۔ پاکستان کے سیاسی حکمران اور فوجی ڈکٹیٹر اس کے ذمہ وار ہیں۔ یہ قائد ؒ کے وژن کے مطابق پاکستان میں مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست کا نظامِ حکومت کیا قائم کرتے، تجربات کرتے رہے۔ ایک سیاسی حکمران جو دنیا کا پہلا ڈکٹیٹر بھی تھا، نے ملک میں اسلامی شوسلزم قائم کرنے کی ناکام کوشش کی۔ جس کا خاتمہ ملک میں اسلامی قوتوں کی طرف سے چلائی گئی نظام مصطفٰے کی تحریک کی وجہ سے ہوا۔س پھر فوجی ڈکٹیٹر پرویزمشرف نے روشن خیال پاکستان بنانے پر وقت ضائع کیا۔ مکافات عمل کہ اب وہ بھی پاکستان سے بھاگا ہوا ہے۔وہ مذہبی سیاسی قوتیں جنہوں نے ملک میں قائد ؒ کے وژن کے مطابق پاکستان میں اسلامی نظام قائم کرنے کی کوششیں کیں ان کے پاس اقتدار نہیں تھا۔ انہوں نے پہلے اسلامی آئین بنانے کے لیے دستوری مہم چلائی۔ پھر ان ہی کوششوں سے ۱۹۷۳ء کا اسلامی بنا۔ اے کاش! کے اس اسلامی آئین پر عمل ہوتا مگر نہیں ہوا۔ آئین پاکستان کی بنائی ہوئی آئینی باڈی’’ اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ کی ملکی قوانین کو اسلامی بنانے کی سفارشات کو حکمرانوں نے ردی کی ٹوکری میں ڈالے رکھا۔ ہاں ایک کام خوب کیا وہ ملک کے خزانے کو بے دردی سے لوٹتے رہے۔ دو بڑی پارٹیوں کے سربراہوں میں ایک کرپشن میں عدالت کے حکم پر قید ہو سزا کا ٹ رہا ہے۔ دوسرے نے مکاری سے کرپشن کا ریکارڈ ہی غایب کروا دیا۔
پھر ایک کرکٹ کا شاہسوار میدن سیاست میں آیا۔۲۰۱۳ء کے الیکشن میں اُسے خیبرپختون خواہ میں کامیابی ملی اس نے وہاں اتحادی حکومت بنائی۔ جس کی کارکردگی تینوں صوبوں سے بہتر رہی۔ جس کا دامن کرپشن سے پاک ہے۔ اس نے قائدؒ کے وژن کے مطابق پاکستان میں اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا بیڑا اُٹھایا۔ملک میں کرپشن کو ختم کرنے اور کرپٹ لوگوں کو کیفے کردار تک پہنچانے کے پیچھے پڑا۔۲۰۱۸ء کے الیکشن میں مرکز ، صوبہ خیبر پختونخواہ میں حکومت بنانے کے لیے میڈیٹ ملااور بلوچستان میں اس کی حمایت سے حکومت بننے کا امکان پیدا ہوئے۔ ہارنے والوں نے پاکستان کے سیاسی کلچر کے مطابق دھاندلی کی رٹ لگائی۔خاص کر ایک صاحب جس نے تیس سال بعد ہارنے کا مزا چکھا ، تو غیر فطری مطابات ،کہ جیتنے والے حلف نہیں اُٹھائیں گے۔ جیتنے والے وزیر اعظم کو حلف نہیں اُٹھانے دیا جائے گا۔ملک کے سپہ سار کے ساتھ لڑائی شروع کی۔عدلیہ اور فوج کے خلاف مہم جوئی شروع کی۔ عوام سے کہا کہ ملک میں آزادی کاجشن نہیں منایاجائے ۔ پھر ایک ایک کر کے ان کے غیر فطری مطالبات اور نعروں سب پارٹیاں ان کے خیالات کے خلاف ہوگئیں۔ جیتنے والی اپوزیشن نے کہا کہ ہم حلف اُٹھائیں گے۔پارلیمنٹ میں احتجاج کریں گے۔ ایک پارٹی نے کہا ہم منفی سیاست نہیں کریں گے۔ جیتنے والے کو ملک میں اسلامی فلاحی رسیاست کا وعدہ پرا کرنے کا پورا موقعہ دیں گے۔ ایک پارٹی نے کہا کہ فضل الرحمان صاحب کے اداروں کے خلاف مہم میں شریک نہیں ہوں گے۔ لے دے کے ان کے ساتھ نون لیگ کے وہ ہی اتحادی لوگ رہ گئے جو نون لیگ کے عدلیہ اور فوج کے خلاف بیانیہ کے حمایتی تھے۔ جن کو قوم نے اپنے ووٹ سے الیکشن میں مسترد کر دیا۔
صاحبو! کیاوجہ ہے کہ سیاسی لوگ مخالفت برائے مخالفت کے فارمولے پر عمل کریں؟۔ یہ ملک سب کا ہے۔ آج تحریک انصاف جیت کر آئی ہے کل کوئی اور آسکتا ہے۔ اللہ نے عوام کی خواہشات کے مطابق، ایک دفعہ پھر وقت کا پیہّہ گما کر ان حالات پر لایا، کہ جیسے برصغیر میں قائد ؒ کے وژن کے مطابق پاکستان مطلب کیا لا الہ الااللہ کا مستانہ نعرہ گونج رہا تھا۔ اگر سیاست دان ملکِ پاکستان سے وفادار ہیں تو انہیں عمران خان کے قوم سے کیے گئے وعدوں پورے کرنے کا وقت دینا چاہیے۔ جو قائد ؒ کے وژن کے مطابق پاکستان کو کرپشن فری اور مدینہ کے اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا عزم رکھتا ہے۔ اس نے الیکشن جیتنے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں اس کا نقشہ عوام کے سامنے پیش بھی کر دیا۔ عوام دعا ء گو ہیں کہ اللہ کرے۷۱؍ واںیوم آزادی پاکستان اور مدینہ کی فلاحی اسلامی ریاست کا خواب عمران خان کے ہاتھوں پورا ہو۔ آمین۔