لندن ۔۔۔ شاہدجنجوعہ
فریدملت انسٹی ٹیوٹ کے بانی ڈائیریکٹر صدارتی ایوارڈ یافتہ عظیم نعت گوشاعر سکالر، محقق، قلم کار، جناب #ریاض_حسین_چودھری ایک برس قبل خاموشی سے اگست 2017 میں اس جہان فانی سے کوچ کرگئے ۔ وہ ایک ایسے نفیس انسان تھے کہ جن سے میری بہت قریبی وابستگی رہی۔ آج سے تین دھائیاں قبل ایک میگزین تحریک نکالا گیا جس کیلئے ریاض حسین چودھری نے مجھے لکھنے کی ترغیب دی اور اسکے بنیادی اصول سمجھائے۔ وہ نعت گو شاعر ہی نہیں انقلابی شخصیت کے مالک تھے انہوں نے معاشرے کے زندہ مسائل، نشیب وفرائض اور ناانصافیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں
حضور چھوٹے سے گھر کی تلاش ہے مجھکو
اٹھائے پھرتا ہوں خیمے میں بے گھروں کی طرح
حضور جائے سکونت کہیں نہیں ملتی
میں اپنے ملک میں ہوں غیرملکیوں کیطرح
آج میری آنکھیں ریاض حسین چودھری کو یادکرکے اشکبار ہیں کہ اس چند روزہ زندگی میں اداکار نما مزہبی پنڈت کسطرح مخلص لوگوں کو استعمال کرکے انہیں اسوقت بے سہارا چھوڑ دیتے ہیں جب وہ بڑھاپے کیوجہ سے مزید کام کرنے کے قابل نہ رہیں ۔
ریاض حسین چودھری لکھتے ہیں کہ
بعد مرنے کے چلے جائیں گے سب سے چھپ کر
ایک گھر ھم نے مدینے میں بنا رکھا ہے
ہم تہی دست نہیں حشر کے میداں میں ریاض
اپنی بخشش کا بھی سامان اٹھا رکھا ہے
عکس درِ رسول مری چشم تر میں ہے ۔
ریاض حسین چودھری سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے پر اسلوب بزرگ شاعر نے اپنی وفات سے تین سال پہلے اپنے ایک خط میں اپنی ناسازی طبیعت کی تصویر کھیچتے ہوئے جناب صبح الدین رحمانی کو ایک خط میں یوں لکھا
ایک عرصے سے رابطے کی کوئی صورت پیدا نہیں ہوسکی شاید اس میں میرے ازلی تساہل ہی کا عمل دخل ہے پچھلے دو تین تین ماہ چیسٹ انفیکشن کی اذیت میں مبتلا رہا ہوں ۔کھانسی توبڑی حد تک ختم ہوچکی ہے لیکن بلغم ابھی باقی ہیں ۔خدا کاشکر ہے بلڈ پریشر اورشوگرکے جن قابو میں ہیں ۔اکھڑی ہوئی سانسیں بھی اعتدال کی راہ پرگامزن ہیں البتہ چلنے پھرنے میں دقت محسوس ہوتی ہے
اور اپنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں
قلبِ خوش بخت میں جذبات کے لشکر رکھے
لفظ، آقا کی غلامی کے مکرّر رکھے
میری فطرت میں خداوندِ دوعالم نے ریاض
حبِّ سرکارِ مدینہ کے سمندر رکھے
ان کی ایک نعت مبارکہ دیکھیے
نعت ِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
عکس درِ رسول مری چشم تر میں ہے
آباد آئنوں کا سمندر نظر میں ہے
قدموں کی دھول سر پہ سجانے کے واسطے
خوشبو چراغ لے کے ازل سے سفر میں ہے
شبنم، دھنک، چنار، ہوا، چاندنی، سحاب
ہر حُسنِ کائنات تری رہ گزر میں ہے
ہر چیز رقص میں ہے جہانِ شعور کی
کیفِ دوام مدحتِ خیرالبشر میں ہے
ان کے قدوم پاک کی اترن کے نور سے
سورج میں روشنی تو اجالا قمر میں ہے
خورشید صبح غارِ حرا سے بلند ہو
آدم کی نسل ظلمتِ شب کے اثر میں ہے
کملی کی اُوٹ میں اسے لے لیجیے حضور
میرا چراغ تیز ہوا کے نگر میں ہے
شہرِ سخن میں اسمِ نبی کی ہے چاندنی
ورنہ کمال کیا مرے دستِ ہنر میں ہے
سب کچھ عطا کیا ہے خدا نے حضور کو
سب کچھ ریاض دامنِ خیرالبشر میں ہے
ٰ#طاہرالقادری کی معروف کتاب سیرت النبیؐ کی کئ جلدیں دراصل انکی محنت شاقہ کا نتیجہ ہے جو طاھرالقادری کے نام سے چھپیں۔ ریاض حسین چودھری طویل عرصہ علالت کے بعد فوت ہوئے تو انکا نماز جنازہ پڑھنے کیلئے #طاہرالقادری انکے بیٹے یا منہاج القرآن کا کوئی زمہ دار شامل نہ ہوا۔
اس سے بھی عجیب وہ شخص جس نے ساری زندگی انقلاب کی امید پر طاہرالقادری کی نظر کردی اور دن رات کام کیا انکی بیمار پرسی کیلئے کبھی ایک دفعہ بھی طاہرالقادری انسےملنے گیا نہ منہاج القرآن کا کوئی زمہ دار انکے پاس حاضر ہوا، طاہرالقادری کے بقول دنیا کے 190 ممالک میں پھیلے نیٹ ورک میں کسی ایک جگہ بھی ریاض حسین چودھری سابق ڈائریکٹر فریدملت ریسرچ انسٹیٹیوٹ کیلئے باقاعدہ دعائے مغفرت تک نہیں کی گئی۔ منہاج القرآن کا پورا نیٹ ورک صرف طاہرالقادری اوراسکے بیٹوں، پوتوں اور بہو کی برتھ ڈے منانے اور انکے لئے دنیا بھر میں پراپرٹیز خریدنے پر مرکوز ہے۔ منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کے اربوں کے فنڈز میں سے ایک روپیہ بھی اس عظیم شخص کے علاج معالجے یا کفالت کے لئے خرچ نہیں کیا گیا۔
یا اللہ تجھے تیرے محبوب کا واسطہ تو بزرگ نعت گو شاعر ریاض حسین چودھری کو جنت الفردوس میں رسولؐ اللہ کے پہلو میں جگہ دے اور ان پر اپنی بے حساب رحمتیں نازل فرما۔