آز۱د قومیں ،ترقی و خوشحالی 

Published on September 9, 2018 by    ·(TOTAL VIEWS 199)      No Comments

مقصود انجم کمبوہ 
بھائی چارہ ، محبت ، انتخابات ، جمہوریت اور آزادی ہمارا مطمئع نظر ہونا چاہئیے ہم ایک ایسے خطے میں رہ رہے ہیں جہاں ہمارے ارد گرد ہمارے ازلی دشمن رہ رہے ہیں اور وہ ہر لمحہ ہماری آزادی کے خاتمے کے درپے ہیں اور دہشت گردی ، انتشار و افتراق اور قتل و غارت گری کا بازار گرم کئے رکھتے ہیں ہمیں اپنی آزادی کی قدر اور تحفظ کے لئے ہر قدم اُٹھانا چاہئیے تاہم ایسا کرتے وقت ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئیے کہ آزادی کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں وہ یہ کہ ہم اپنے پڑوسی اور دنیا بھر کے دوسرے لوگوں کی آزادی کا بھی خیال رکھیں ہمدردی اور خیر خواہی کے جذبے سے عاری آزادی انسان میں بے رحمانہ ، خود پسندی اور خود غرضی کو جنم دیتی ہے کوئی بھی جدو جہد اور قربانیوں کے بغیر آزادی سے بہرور نہیں ہو سکتا آزادی کوئی ایسی شے نہیں ہے جسے جب چاہا محض بٹن دبا کر حاصل کیاجاسکے آزادی کے غلط استعمال کا نتیجہ لازماً کسی دوسری قوم یا طبقے کو بھگتنا پڑتا ہے اس لئے آزادی کے دشمنوں سے رواداری اور نرمی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہر قسم کے انتہا پسندوں کے بارے میں ہمارے حالیہ تجربات و مشاہدات سے ہمیں یہ سبق سیکھ لینا چاہئیے اس سلسلے میں نہ صرف مملکت بلکہ ملک کے تمام شہریوں پر بھی یکساں ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ انتہا پسندی کے رجحانات کے خلاف بھر پور مزاحمت کریں ہمیں بنیادی قدروں کے خلاف دانشورانہ بھول بھلیوں اور لفظوں کے ہیر پھیر سے گمراہ نہیں ہونا چاہئیے اس بات کا کوئی جواز نہیں ہے کہ ہم محض بھاری بھر کم الفاظ کے اندیشے کی وجہ سے “آزادی “کے مسئلے کو تعلیمی نظام میں شامل نہ کریں ہمیں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم اپنے بچوں کو اچھی طرح سمجھائیں کہ آزادی کا آزاد روی سے کوئی تعلق نہیں ہے ہمیں اس بات کا پورا خیال رکھنا چاہئیے کہ آزادی کی حدود کیا ہیں اور اس سلسلے میں ہم پر کیا کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ہمیں یہ سبق ضرور سیکھنا چاہئیے کہ آزادی میں ہمارا طرزِ عمل کیا ہونا چاہئیے ہمارے دانشوروں کو چاہئیے کہ وہ نئی نسل کو آزادی اور جمہوریت کی قدروں کے بارے میں اصل حقائق سے آگاہی دیں ہمارے ہاں جو جمہوریت پھل پھول رہی ہے اس سے نئی نسل کی خواہشات اور تمنائیں پوری نہیں ہو رہیں میرٹ کا قتل عام ، لوٹ مار کا نظام ، انصاف کی عدم فراہمی ، من مرضی کے قوانین و ضوابط کی تشکیل ، غنڈہ گردی ، غریبوں کے حقوق کی پامالی ، قوم پرستی، ذات پات کی بالا دستی ، کمزور انسانوں سے بد سلوکی ، انسان کو غلام بنانے کی خواہش ، فیصلہ سازی کا اختیار آمرانہ انداز میں یہ سب کچھ جمہوریت کے لئے زہر قاتل ہیں ، جمہوریت صرف اکثریتی رائے کا نام نہیں ہے بلکہ جمہوریت نام ہے ان اصولوں پر متفق ہونے کا جن کے ذریعے منتخب نمائندے اور دیگر عمال حکومت کسی ملک میں ایک ساتھ رہنے والے لوگوں کے مسائل نمٹاتے ہیں اور ایک مقررہ مدت تک ملک کا نظم و نسق چلاتے ہیں عمائدین کو سیاسی ذمہ داریاں اپنے لئے ایک چیلنج اور وقار کا مسئلہ سمجھ کر قبول کرنی چاہئیں اس وقت لوگوں میں سیاست سے بے زاری کا جو رجحان پنپ رہا ہے وہ ہماری جمہوریت کے لئے ہر گز فخر و اطمینان کا باعث نہیں ہو سکتا قوم کے کردار کو بھی اسی حوالے سے دیکھا جائے اور پرکھا جانا چاہئیے اس وقت بڑھتی ہوئی نسل اور قوم پرستی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ تنازعات کے تجزئیے میں قومی مملکت کی تعریف اور کردار کو پیشِ نظر رکھا جائے پورے پاکستان میں قوم پرستی ، مذہبی منافرت اور برادری ازم کے جذبات بڑی بے دردی سے ابھر رہے ہیں اس سلسلے میں سیاست دانوں کا کردار و عمل منفی نظر آتا ہے عالم دین مذہب کو اپنی ذات کے لئے استعمال کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں جماعت اسلامی کا کردار ماند پڑتا جارہا ہے اسلامی قوانین کے نفاذ میں کسی بڑے اسلامی اتحاد نے سوائے اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے کوئی مثبت اور ہمہ گیر کام نہیں کیا یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے ملک کے اندر اسلامی تنظیموں کی کارکردگی کو کوئی اعلیٰ مقام حاصل نہیں ہو پایا ۔ یہ وقت تھا کہ اسلامی جماعتیں متحد ہو کر پاکستانیوں کو اپنی طرف متوجہ کرتیں مگر انکی کو ششیں بے کار ہوئیں چہ جائکہ کہ ہم متحد ہوکر ایک دوسرے کے مسائل و مشکلات کے لئے مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دے کر کوئی مثبت تبدیلی لاتے مگر افسوس کہ نفرت و حقارت کے جذبات فروغ پائے آج ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں 1947میں تھے 71سالوں میں ہم ایک “قوم “نہیں بن پائے جنرل ایوب خاں مرحوم کے دورِ اقتدار میں جس شرح سے ملک میں ترقی کا گراف بلند ہوا آج نہیں ہے اس نے جو کچھ عوام کو دیا اور مختلف طبقات کی ترقی و خوشحالی کے لئے منصوبہ بندی کی آج نہیں ہے سابق صدر جنرل ایوب خاں مرحوم نے اقتدار چھوڑتے وقت متبنہ کیا تھا کہ وَن یونٹ نہ توڑا جائے اور غدار مجیب الرحمٰن کو رہا نہ کیاجائے تو پاکستان کو بکھرنے سے بچایا جا سکتا ہے مگر افسوس کہ اقتدار حاصل کرنے والے سیاستدان سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے یہ سب کچھ کر دکھایا اِ دھر ہم اُدھر تم کے نعرے نے وطن عزیز کو دو لخت کر کے چھوڑا ہمارے سیاستدانوں نے ہمیشہ سے فوج کے ساتھ جنگ کی اور ملک کو گھمبیر صورتحال سے دو چار کیا فوجی ادوار میں جو ترقی و خوشحالی آئی وہ وہ جمہوری دور میں نہیں آئی پھر بھی سیاستدان عوام کو گمراہ کرتے چلے آرہے ہیں اصل حقیقت یہ ہے کہ سیاست دانوں نے ملک کو لوٹ کر اپنی تجوریاں بھریں اب یہ حقیقت کھل کر سامنے آگئی ہے کہ کس کس نے کس طرح ملک عزیز کو لُوٹا اور جعلی جمہوریت لاگو کر کے عوام کو بیوقوف بنایا یورپی ممالک میں جو جمہوریت ہے جس کا ذکر گذشتہ روز نئے وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ایک قومی خطاب میں کیا وہ ہے اصلی جمہوریت جس سے یورپی ممالک کے شہری مزے لوٹ رہے ہیں عوام کو چاہئیے کہ وہ اپنے فیصلے آپ کرنے کی کوشش کریں حالات کا طائرانہ جائزہ لیں کس نے ملک سے کیا لیا اور کس نے ملک کو کیا دیا ۔ ان انتشار پسند سیاست کاروں سے دوررہ کر موجودہ حکومت کو سپورٹ دی جائے جمہوریت اور آزادی کے رکھوالے بن کر ملک عزیز کی ترقی و خوشحالی کے اقدامات کو سپورٹ دیں گذرا وقت پھر نہیں آتا یورپی اقوام وقت کی غلام بن کر پوری دنیا کی معشیت پر حکمرانی کے مزے لوٹ رہی ہیں جبکہ ہم صرف اپنے ملک کے کرپٹ سیاستدانوں کے غلام بن کر دنیا میں ذلیل و خوار ہورہے ہیں خو د داری بھی کوئی چیز ہوتی ہے انا پرستی سے ہی ہم ترقی کر سکتے ہیں ۔ 

Readers Comments (0)




WordPress主题

WordPress主题