تحریر ۔۔۔آیوشہ راٹھور
ٓآج پانچ سال بعد پھر میں اپنی دھرتی ماں کے قدموں میں کھڑا ہوں ۔
وہ دھرتی ماں جس نے مجھے بہت چاہنے والے ، پیار کرنے والے اپنے دیے
بہت سے ان گنِت لمحے اور خوبصورت یادیں تھیں جو آج بھی کسی ناگن کی طرح
پھن پھیلائے میرے سامنے کھڑی ہیں۔
کہتے ہیں
ہمیشہ ندی کے دوسرے کنارے پر اُگی ہوئی گھاس زیادہ سبز دکھائی دیتی ہے۔
میں بھی انہیں لوگوں میں سے تھا جو اس گھاس کی خوشنمائی دیکھ کر اسے پانے کی چاہ میں
بہت سے اپنوں سے دوری اختیار کر گئے تھے۔
اس گھاس کی دل ربائی ایسی تھی کہ پانچ سال میں نے اس نشے میں گزا ر دیے۔
کیا نہیں تھا میرے پاس رشتے ، عزت ،شہرت سب تھا
مگر مزید کی چاہ نے مجھے میری مٹی میرے اپنوں سے دور کر دیا ۔
مجھے آج بھی یاد ہے میرے جانے کا سن کر۔۔وہ میرے پاس آئی لمبی سانس بھری ،،،
اور مخمور سی آواز میں فلسفیانہ انداز لیے بولی
تم محبت کی روایت سے نا واقف ہوولی احمد
زرخیزی اور مناسب آب و ہوا میں محبت کا پودا کبھی پروان نہیں چڑھتا جب تک وفا کا بیج نہ بویا جائے
دیکھو نا
آج میری محبت کو بھی بے بسی کی موت سلا دیا گیا ہے۔۔
میں تمہیں روکوں گی نہیں کیونکہ
جانے والے کبھی رکتے نہیں ۔۔یہ تو محض لا شعوری طور پر دل کے سکون کے لیے اک نا کام سی کوشش تھی۔۔
یہ کہہ کر وہ رکی نہیں ۔۔اور میں سر جھٹک کر پیکنک کرنے لگا
گویا میں اس کی دل نشین باتوں کو محض ایک تقریر سمجھ رہا تھا ۔۔
لیکن آج جب دل نے بہت شدت سے اپنوں کو یاد کیا تو
پانچ سال بعد پھر سے میں اپنی مٹی اور اپنوں کے بیچ کھڑا تھا۔۔۔
تو پھر بیشمار پرانی یادوں نے میرا گھیراؤ کر لیا۔
جن سے بچنا فِل وقت ناممکن دکھائی دے رہا تھا، اور میں ان کے آگے سر جھکا گیا
آہ۔۔۔
’’زندہ رہنے کی خواہش بھی کیا کیا فریب دیتی ہے
زندگی کی سمجھ آنے کے بعد ہی آگہی کے راز کھلتے ہیں ۔
مگر یہ کمبخت دل!!!دوڑتا ہی رہا
دولت ، شہرت،اقتدار ہر شے دل لبھانے والی تھی لگتا یہی تھا کہ دوڑ ہی زندگی ہے۔۔
لیکن اصل زندگی تو تب شروع ہوتی ہے جب انسان خودی اور خدا کی پہچان کر پاتا ہے۔۔۔
پھر سہی معنی میں زندگی کے راز عیاں ہوتے ہیں اور سمجھ آتا ہے کہ
ہم نے کیا کھویا کیا پایا ،،زندگی کہ سودو زیا ں کی سمجھ آتی ہے شعور آتا ہے۔۔
زندگی کی بے بسی کا اندازہ۔۔۔مستنصر حسین کا ’’بہاؤ‘‘ پڑھنے کے بعد ہوتا ہے۔
ناول پڑھنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ
جیسے انسان کی حیثیت محض ویکٹریا کیریئرکی ہے
جس کا کام زندگی کو لے کر آگے منتقل کرنا ہے اور بس
کوئی کہتا ہے۔۔۔
زندگی زندہ دلی کا نام ہے
تو کوئی کہتا ہے کہ۔۔ زندگی کو بیان کرنا ،اس کا شماریاتی جائزا لینا صحافت کا کام ہے
جبکہ اسے کرنا اور اسے کرتے دکھائی دیناادب کا۔
لیکن میں کہتا ہوں ۔۔’’زندگی ایک سبق ہے جو تجربے سے حاصل ہوتا ہے،
جہاں ٹھوکر لگی وہیں نیا تجربہ ،نیا سبق ہمارے ساتھ اک نئے ہم سفر کے طرح سفر کرنے کو تیار ہوتا ہے۔
میں ولی احمد
خاندان کا سب سے پڑھا لکھا خوب رونو جوان تین بہنوں کا اکلوتا بھائی
خاندان میں کوئی بھی میرے ہم پلہ نہیں
اس بات کا مجھے اچھا خاصہ غرور بھی تھا
تبھی شائد میں کسی کو خاطر میں نہیں لاتا تھا اور جوکرنے کی ٹھان لیتا وہ کر کے دم لیتا
سب کچھ ہونے کہ باوجود بھی ان دنوں مجھے باہر جانے کا نیا شوق چڑھا تھا سب کے سمجھانے
کے باوجود میں نے اپنی با ت پوری کر کہ ہی دم لیا ۔۔
بہت سے اپنوں کے دل ٹوٹے لیکن میری خودسری کے آگے میرے اپنوں کے پیا ر بھرے جزبات کو شکست ہوئی،
آج پانچ سال کا عرصہ بہت ہی لمبا لگ رہا تھا۔
ایک طویل تکلیف دہ سفر کے بعد جب اپنی دھرتی پہ قدم رکھا تو بہت سی پرانی یادیں تازا ہو گئیں ۔۔
گو کہ ’’احمد ولا‘‘ میں میرے آنے کی خبر ہو چکی تھی لیکن وہاں جانے کی بجائے فلیٹ پر جانے کو
ترجیح دی کیونکہ میں اتنی جلدی سب کو فیس نہیں کر سکتا تھا۔
اور وہ ۔۔وہ دشمنِ جاں بھی تو وہیں ہو گی۔۔
فلیٹ میں پہنچا تو سامان سائڈ پہ رکھ کے فریش ہوا ۔۔۔فریش ہو کر ۔۔۔
یونہی کھڑکی میں کھڑا ہو کر سامنے سڑک پر دیکھنے لگا۔کیونکہ ’’احمدولا‘‘ جانے کی ابھی ہمت نہیں تھی ۔
سامنے سڑک پر عجیب ہی سماء تھا پانچ سالوں میں بہت کچھ بدلا تھا،،، اگر کچھ نہیں بدلا تھا تو وہ تھامقامِ دل
ہر چیز ایک خوبصورت منظر پیش کر رہی تھی
سامنے سڑک پر ایک لمبی قطار لگی تھی جس میں ہر سائز اور ماڈل کی کار کھڑی تھی ۔
جب اشارہ کھلا تو موٹریں ایسے بکھرنا شروع ہوئیں جیسے شام میں پرندے غول درغول اپنے گھر کا رُخ کرتے ہیں۔
سڑک کے چاروں اطراف اونچی اونچی امارتوں نے جُھگئیوں کو شکست دے دی تھی۔
کبھی یہاں پکھی واس رہا کرتے تھے۔ اب تو بنجر زمین بھی سونا اگل رہی تھی۔
گلیوں میں لگی سٹریٹ لائٹس شام میں ستاروں کا سا منظر پیش کر رہی تھیں ۔
گویا زندگی ہر طرف رواں دواں تھی۔
یہ ارتکا ہے
ابھی یہ لوگ کہتے ہیں ہماراملک غریب ہے
ہمارا ملک غریب نہیں ہماری مٹی تو سونا اگلتی ہے۔
بس کچھ ملک دشن عناصر۔۔۔ کچھ اپنوں میں چھپے دشمن منافقت کا روپ
دھارے ملک کو لوٹنے میں مصروف ہیں ایسے کرپٹ لوگوں کی اجارہ داری کو ختم کرنا ہو گا۔
ہمیں ایک قوم بن کر انکا مقابلہ کرنا ہو گا اور وہ دن دور نہیں
جب ہم دنیا کے نقشے پر ایک عظیم قوت بن کر ابھریں گے
یہاں کچھ مثالیں مجھ جیسے نوجوانوں کی بھی ہیں جو سب کچھ ہونے کہ باوجود اس وقت بغاوت کرتے ہیں
جب انکے ملک کو اور اپنوں کو ان کی ضرورت ہوتی ہے ۔۔۔
یادوں کا لمبا سلسلہ ۔۔۔پچھتاوں کی سر زمین پر قدم رکھ چکا تھا
آج ’’احمد ولا‘‘ میں چھوٹی کی مایوں کی تقریب ہے
اور میں پچھتاؤں میں گھرا یہی سوچ رہا ہوں کہ وہاں کس منہ سے جاؤں
ابھی میں اپنا محاسبہ کر ہی رہا تھا کہ’’احمد ولا‘‘ سے سب کزنز اور ابا جی مجھے لینے میرے فلیٹ پر ہی پہنچ گئے
کچھ دیر یونہی شکوے شکایتیں ہوتی رہیں۔
بالآ خرمیں سب کزنز اور ابا جی کے ساتھ ’’احمد ولا‘‘ کے لئے روانہ ہوا
راستے میں بھی سب ہلکی پھلکی گفتگو ہوتی رہی ۔
گھر پہنچ کر ملاقاتوں کا تانتا بندھا رہا۔گھر مہمانوں سے بھر چکا تھا
رات گئے کہیں جان بخشی ہوئی تو بستر پر ایسا گرا کہ اگلی صبح ہی آنکھ کھلی۔۔
’’ابھی تک وہ ایک چہرہ نظر نہیں آیا تھا جس کا دل کو بے صبری سے انتظار تھا
فریش ہو کر جونہی نیچے آیا تو وہ کچن میں کھڑی دکھائی دی
لیکن مجھے دیکھتے ہی غائب ہو گئی
اس کی ناراضگی بھی بجا تھی
آج مہندی کا فنکشن شہر کے مہنگے اور شاندار ہوٹل میں تھا۔سب تیار ہو کر ہوٹل کے لئے نکل رہے تھے۔
میں جونہی تیار ہو کر نیچے آیا تو چھوٹی کی آواز آئی
بھائی سنیں
سب گاڑیاں فل ہو چکی ہیں ۔۔۔من تشاء اندر کچھ سامان لینے گئی ہے
اسے لیتے آئیے گا ، پلیز
اوکے!!!ٹھیک ہے
تم لوگ نکلو،میں لے آتا ہوں ۔
میں نے چھوٹی سے جانے کو کہا۔
چلو دل کی خواہش تو پوری ہوئی اب وہ محترمہ نظر آ ہی جائیں گی ۔
میں کچھ سوچ کر گاڑی سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا۔
کچھ ہی دیر میں وہ سامان اٹھائے گاڑی کی طرف آتی دکھائی دی
جونہی مجھ پر نظر پڑی تو وہ رخ موڑ کر کھڑی ہو گئی۔۔۔
میں مبہوت سا اسے دیکھے گیا۔
گہرے سبز رنگ کے سوٹ میں بڑی بڑی غزالی
آنکھوں کے ساتھ۔۔۔وہ لا تعلق سی کھڑی دل کو ایک نیا روگ دے گئی۔
من تشاء !!!چلیں آپکو میرے ساتھ جانا ہے۔ وقت بھی کافی ہو گیا ہے۔
میں نے ہمت کر کے اسے بلایا ۔
’’نو تھینکس‘ میں خود چلی جاؤں گی ۔۔۔
اس نے با مشکل جواب دیا
اس سے پہلے کہ وہ قدم بڑھاتی میں اس کے سامنے جا کھڑا ہوا ۔۔۔
پلیز، من تشاء!میں معافی کا طلب گار ہوں ۔۔سنا ہے محبت میں انا نہیں ہوتی۔
پلیز مجھے معاف کر دو
میں وعدہ کرتا ہوں تمہیں اب کبھی دکھ نہیں دوں گا۔ گزرے سالوں کا کفارہ ادا کروں گا۔
وہ یک ٹک دیکھے گئی
عجیب سی بے بسی اس کا احاطہ کرنے لگی
اس نے اک سرد آہ بھری
’’جدائی سے تو بہتر تھا تم زہر دے دیتے
تمہارہ نام ہو جاتا ، ہمارا کام ہو جاتا۔
آنکھوں میں نمی لئے بالوں کو دونوں ہاتھوں سے سمیٹتے ہوئے وہ دل میں اک نیا درد جگا گئی تھی
اس کی مخمور سی آواز سنائی دی تو دل میں تار بج اٹھے
تاریخ، جغرافیہ ،ارتکا۔۔۔آنکھوں کے آگے سے زمانہ گزر رہا تھا ۔
مگر ! یہ اک لمحہ اچانک اسی جگہ پر اٹک گیا۔
بال اس کے ہاتھوں کی بے جان سی گرفت سے چھوٹ کر گردن پر لہرانے لگے
میں یک ٹک اس پیارے دل کی مالک لڑکی کو دیکھے گیا ۔
جس نے بڑی فراخ دلی سے گزرے سالوں کو بھلا کر مجھے معاف کر دیا۔
آج ایک عورت کی جیت ہوئی جو وفاداری کی مثال ہے
آج محبت جیت گئی تھی۔
میں نے اسے آنکھوں میں سموتے ہوئے ایک عاشقانہ سی آہ بھری ۔
’’تیرا خیال بھی تیری طرح مکمل ہے
وہی شباب ،وہی دل کشی ،وہی انداز
میں نے اسی کا انداز اپناتے ہوئے اس کی طرف دیکھا تو وہ چھینپ سی گئی
اس کہ اچانک رُخ موڑنے پر میرا قہقہ فضا ء میں گونج اٹھا
آج زندگی بہت حسین لگ رہی تھی کیونکہ ، میرے اپنے میرے ساتھ تھے۔
دور سے آتی کوئل کی کُو کُو خوشیوں کی نوید سنا رہی تھی
ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے آس پاس شادیانے بج رہے ہوں
کیونکہ! محبت جزا کی صورت میرے ساتھ تھی،،،
اور میں ربِ کریم کا شکر ادا کر کے مسکرا دیا۔