بیجنگ(یواین پی)پاکستان میں جاری اقتصادی منصوبوں اور مرنبی صوبے زِنجیانگ میں صورتحال پر تنقید کا جواب دیتے ہوئے چین کے اعلیٰ سفارتی اہلکار نے کہا ہے کہ چین اور پاکستان سے تعلقات کے تعلقات میں دراڑ ڈالنے کا کوئی منصوبہ کامیاب نہیں ہوگا۔اقوامِ متحدہ میں جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر چین کے اسٹیٹ کونسلر وانگ وائی نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی جس میں انہوں نے پاکستان میں ہونے والے حالیہ انتخابات کے نتیجے میں بننے والی وزیر اعظم عمران خان کی نئی حکومت کا خیر مقدم کیا۔جس کے بعد چینی وزارت خارجہ سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ انتشار کو فروغ دینے کی کوئی سازش یا پاکستان اور چین کے تعلقات میں مداخلت برداشت نہیں کی جائیگی۔وانگ وائی کا مزید کہنا تھا کہ چین اور پاکستان کو اقتصادی راہداری کیحوالے سے تجارت کو فروغ دینے، پاکستان کے عوام تک ثمرات پہنچانے اور غربت کے خاتمے کے لیے چین اور پاکستان تمام تر کوششیں جاری رکھیں گے۔چینی محکمہ خارجہ کے مطابق پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے چینی عہدیدار سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حالات کی نوعیت چاہے کچھ بھی ہو چین اور پاکستان کے تعلقات میں تبدیلی نہیں آئے گی۔اقتصادی راہداری پاکستان کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے جس سے روزگار، ترقی اور عوام کی زندگیوں میں تبدیلی آئے گی اور اسلام آباد اس منصوبے کی سیکیورٹی کے لیے ہر ممکن اقدامات کرے گا۔خیال رہے کہ مسلمان ملکوں کی اکثریت کی مانند اسلام آباد بھی چین کے صوبے زِ ن جیانگ میں ہونے والے مبینہ سیکیورٹی کریک ڈاؤن پر خاموش ہے تاہم پاکستانی تاجروں کے ایک گروپ نے، جس کے اراکین کی شریک حیات اور اولادیں اس سے متاثر ہوئے نئی حکومت سے اس ضمن میں بیجنگ پر دباؤ ڈالنے کا مطالبہ کیا۔دوسری جانب بیجنگ کا کہنا ہے کہ اسے زِ نجیانگ میں مسلمانوں اور علیحدگی پسندوں سے سنگین خطرات لاحق ہیں اس کے ساتھ انہوں نے بدسلوکی کے واقعات کی بھی تردید کی۔واضح رہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری(سی پیک) کے تحت چین نے پاور سٹیشنوں، مرکزی شاہراہوں ، نئی ریلوے اور زیادہ گنجائش والی بندرگاہوں کی تعمیر کرنے کے لئے 57 ارب ڈالر کا وعدہ کیا ہے، جو کہ چینی صدر زی جِنپِنگ کے چین سے یوریشیا تک کے بیلٹ اور روڈ منصوبے کا اہم حصہ ہے۔چینی منصوبوں کا استحکام رواں مہینوں میں ایک بار پھر موضوعِ بحث آئے جب امریکی سیکریٹری اسٹیٹ مائیک پومپیو نے جولائی میں خبردار کیا تھا کہ اگر پاکستان آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ حاصل کرے گا تو وہ چینی قرضوں کی ادائیگی کے لیے استعمال نہیں ہوگا، جس پر بیجنگ اور اسلام آباد کا کہنا تھا کہ قرضے مستحکم ہیں۔