لاہور(یواین پی)عام انتخابات 2018کے بعد آج(اتوار کو )ملک کے مختلف حصوں میں ضمنی انتخاب کے لئے میدان سجے گا ،35حلقوں میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف،مسلم لیگ ن اور دیگر سیاسی جماعتوں کے امیدوار قسمت آزمائی کریں گے ، الیکشن کمیشن نے پولنگ کے تمام تر انتظامات مکمل کر لیے ،پاک فو ج کے 40ہزار جوان فرائض سر انجام دیں گے جبکہ رینجرز ، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ایک لاکھ سے زائد اہلکار سیکیورٹی فرائض ادا کریں گے ۔تفصیلات کے مطابق عام انتخابات 2018کے بعد آج 14اکتوبر اتوار کے روز قومی و صوبائی اسمبلی کے35 حلقوں میں ضمنی الیکشن منعقد ہو گا ،الیکشن کمیشن نے ضمنی انتخاب کی تمام تر تیاریاں مکمل کر لی ہیں ، الیکشن کمیشن نے پولنگ کے تمام تر انتظامات مکمل کر لیے ہیں ،ضمنی الیکشن کیلئے 95 لاکھ بیلٹ پیپرز چھاپے گئے ہیں، اس انتخاب کے دوران 641 امیدوار مقابلہ کریں گے، ان35 حلقوں میں 92 لاکھ 83 ہزار 74 ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے، جس کے لئے 7 ہزار 489 پولنگ سٹیشن بنائے گئے ہیں جبکہ مختلف حلقوں کے1727 پولنگ سٹیشنوں کو انتہائی حساس قرار دیا گیا ہے۔ضمنی انتخابات میں 40 ہزار سے زائد پاک فوج کے جوان فرائض سرانجام دیں گے جب کہ ایک لاکھ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے اہلکاروں کو تعینات کیا جائے گا۔ الیکشن کمیشن کے مطابق کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کے لیے فوجی جوان پولنگ سٹیشنوں کے اندر اور باہر تعینات ہوں گے۔بیلٹ پیپر اور دوسرے سامان کی پولنگ سٹیشنوں تک ترسیل پاک فوج کی نگرانی میں ہوگی جب کہ الیکشن کمیشن نے وزارت توانائی کو ہدایت کی ہے کہ پولنگ کے دوران متعلقہ حلقوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ نہ کی جائے۔الیکشن کمیشن نے سیکیورٹی سٹاف کے لئے ضابطہ اخلاق بھی جاری کر دیا ہے، جس کے مطابق سیکیورٹی سٹاف پریزائیڈنگ افسر اور آراوز کے ماتحت ہوں گے، سیکیورٹی حکام بیلٹ پیپرز کی گنتی میں مداخلت نہیں کریں گے۔ ملک بھر کے 35 قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات ایک منی جنرل الیکشن کی صورت اختیار کر گئے ہیں کیونکہ ان انتخابات کے نتائج پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اور اپوزیشن خاص کر حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ نواز کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں،ضمنی انتخابات میں قومی اور پنجاب اسمبلی کے 11، 11 حلقوں کے ساتھ ساتھ خیبر پختونخوا اسمبلی کے 9، سندھ اور بلوچستان اسمبلیوں کے 2، 2 حلقوں میں ووٹنگ ہو گی۔واضح رہے کہ قومی اسمبلی کی جن 11 نشستوں پر ضمنی انتخاب ہو رہا ہے ان میں سے چھ نشستیں تحریک انصاف نے عام انتخابات میں جیتی تھی جن میں سے عمران خان کی خالی کردہ چار نشستیں بھی شامل ہیں، ایک نشست وفاقی وزیر علام سرور خان نے خالی کی ہے کیونکہ انہوں نے قومی اسمبلی کے دو نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی جبکہ چھٹی نشست تحریک انصاف کے سنئیر رہنما عارف علوی نے صدر پاکستان منتخب ہونے کے بعد خالی کی تھی ۔لاہور میں قومی اسمبلی کے دو حلقوں این اے 131 اور این اے 124میں بڑا نتخابی معرکہ ہو گا،این اے 131میں تحریک انصاف کے رہنما ہمایوں اختر خان کا سابق وفاقی وزیر ریلو ے اور مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما خواجہ سعد رفیق کے درمیان کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے جبکہ اس حلقے میں اب تک کی رپورٹس کے مطابق تحریک انصاف کے ہمایوں اختر خان کا پلڑا بھاری ہے تاہم اگر وہ الیکشن جیتتے ہیں تو ان کی فتح کا مارجن دو سے پانچ ہزار ووٹوں سے زیادہ نہیں ہو گا،عام انتخابات میں اس سیٹ پر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے خواجہ سعد رفیق کو چند سو ووٹوں سے شکست دی تھی ۔ این اے124میں سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ ن کے رہنما شاہد خاقان عباسی تحریک انصاف کے دیوان غلام محی الدین کے مد مقابل ہیں ،عام انتخابات میں یہ سیٹ حمزہ شہباز شریف نے جیتی تھی تاہم انہوں نے صوبائی اسمبلی کی سیٹ اپنے پاس رکھتے ہوئے اس سیٹ کو خالی کر دیا تھا ،اس حلقے میں دیوان غلام محی الدین کے مقابلے میں شاہد خاقان عباسی کی پوزیشن کافی مضبوط تصور کی جا رہی ہے تاہم کوئی اَپ سیٹ بھی ہو سکتا ہے ۔اسلام آباد سے حلقہ این اے 53 میں ووٹرز کی تعداد 3 لاکھ 13 ہزار 1 سو 41 ہے اور یہاں 11 امیدوار مد مقابل ہیں۔اس حلقے میں ایک بار پھر اصل مقابلہ تحریک انصاف اور نون لیگ کے درمیان ہے۔ تحریک انصاف کے علی نواز اعوان اور مسلم لیگ ن کے وقار احمد امیدوار ہیں، یہ حلقہ وزیر اعظم عمران خان کے نشست چھوڑنے پر خالی ہوا تھا،اس حلقے میں بھی تحریک انصاف کا پلڑا بھاری دکھائی دے رہا ہے۔این اے 60 راولپنڈی میں ووٹرز کی کل تعداد 3 لاکھ 57 ہزار سے زائد ہے، اس حلقہ میں حنیف عباسی کی ‘ایفیڈرین کیس’ میں گرفتاری کے بعد انتخاب ملتوی ہوا تھا۔ یہاں شیخ رشید کے بھتیجے شیخ راشد شفیق تحریک انصاف کے ٹکٹ پر میدان میں ہیں اور ان کا مقابلہ نون لیگ کے سجاد خان سے ہوگا تاہم راشد شفیق کی پوزیشن کافی مضبوط تصور کی جا رہی ہے ۔ مجموعی طور پر حلقے میں امیدواروں کی کل تعداد 9 ہے۔ اس حلقے میں27 پولنگ سٹیشنز انتہائی حساس قرار دئے گئے ہیں۔این اے 63 ٹیکسلا میں ووٹرز کی مجموعی تعداد 3 لاکھ 71 ہزار سے زائد ہے جبکہ یہاں 5 امیدوار قومی اسمبلی کی نشست کے لیے مد مقابل ہیں۔ یہاں تحریک انصاف کے منصور حیات خان اور ن لیگ کے عقیل ملک کے درمیان مقابلہ ہوگا، یہ نشست وفاقی وزیر پیٹرولیم غلام سرور خان نے دو نشستیں جیتنے کے بعد چھوڑی تھی، اس نشست پر انہوں نے سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو شکست دی تھی،این اے 63میں بھی پی ٹی آئی کے امیدوارمنصور حیات خان فاتح دکھائی دے رہے ہیں۔این اے 103فیصل آباد میں پاکستان تحریک انصاف نے محمد سعد اللہ بلوچ کو پارٹی امیدوار نامزد کیا ہے جبکہ ان کا مقابلہ مسلم لیگ ن کے علی گوہر خان سے ہے ،عام انتخابات میں این اے 103 کے امیدوار کی خود کشی کے باعث الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخاب ملتوی کر دئیے گئے تھے۔اس حلقے میں بلوچ، وٹو اور کھرل برادریاں اکثریت میں آباد ہیں اور یہاں دھڑے بندیوں کی سیاست ہوتی ہے۔پی ٹی آئی کے امیدوار سعد اللہ بلوچ سابق وفاقی وزیر تعلیم میاں ناصر بلوچ کے بیٹے ہیں اور حلقے میں اچھا خاصا اثرو رسوخ رکھتے ہیں تاہم ان کو نون لیگ کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑ رہے اپنے چچا علی گوہر بلوچ اور پیپلز پارٹی کے اْمیدوار شہادت بلوچ کا سامنا ہے،فیصل آباد کے اس حلقے میں بھی حکمران جماعت اور مسلم لیگ ن میں کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے ۔این اے 65 چکوال کا الیکشن یکطرفہ ہو چکا چکا ہے،تحریک انصاف کے حمایت یافتہ مسلم لیگ ق کے امیدوار چوہدری سالک حسین مضبوط پوزیشن پر ہیں جبکہ مسلم لیگ ن کے امیدوار فیض ٹمن چوہدری سالک حسین کے حق میں الیکشن سے دستبردار ہوچکے ہیں۔ این اے 69 گجرات سے پاکستان مسلم لیگ ق کے چوہدری مونس الٰہی ، پاکستان مسلم لیگ ن کے حا جی عمران ظفر، آزادامیدوار الحاج افضل گوندل اور تحریک لبیک کے راجہ سلامت کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہو گاتاہم چوہدری مونس الٰہی کی پوزیشن کافی مضبوط ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اس حلقے سے وہ فاتح قرار پائیں گے ۔این اے 247کے ضمنی معرکے میں 22امیدوار میدان میں ہیں تاہم اصل کانٹے دار مقابلہ ایم کیو ایم کے عامر ولی الدین چشتی اور تحریک انصاف کے عالمگیر خان کے درمیان متوقع ہے۔این اے 35 بنوں میں حالیہ الیکشن میں عمران خان اور اکرم خان درانی کے درمیان مقابلہ ہوا اور عمران خان یہ سیٹ تھوڑے مارجن سے جیتنے میں کامیاب ہوئے،اب ضمنی انتخاب میں جمیعت علمائے اسلام نے اکرم خان درانی کے بیٹے زاہد درانی کو ٹکٹ دیا ہے جبکہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ تحریک انصاف نے اپنا ٹکٹ بنوں کے ایک بڑے مدرسہ ‘‘ المرکز الاسلامی ‘‘ کے مہتمم ، نوجوان عالم ، مولانا نسیم علی شاہ کو دیا ہے جو مشہور عالم دین اور فقہی کانفرنسز کے میزبان مولانا سید نصیب علی شاہ مرحوم کے بیٹے ہیں،اس حلقہ میں بھی کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے۔آج ملک کے مختلف حصوں میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف نہ صرف اپنی خالی کردہ نشستیں بلکہ اضافی نشست بھی جیتنے کی کوشش کرے گی تاکہ قومی اسمبلی میں اپنی پوزیشن مزید مضبوط کرسکے جبکہ دوسری طرف یہ انتخابات اپوزیشن کے لیے بھی انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور اپوزیشن کی اہم جماعت مسلم لیگ (ن) ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے عام انتخابات کے حوالے سے اپنے بیانیہ کو تقویت دے سکتی ہے، اگر ن لیگ کو ان انتخابات میں اپنی جیتی گئی نشستوں کے علاوہ کوئی اضافی نشست ملتی ہے تو یہ ان کی بڑی کامیابی تصورہوگی اور پارٹی کا بیانیہ بھی تقویت کا باعث بنے گا۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ‘اوورسیز پاکستانی’ بھی اس انتخاب میں اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ووٹنگ کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے ووٹنگ پینل متعارف کرایا گیا ہے، جس پر رجسٹریشن کرانے کے اہل وہی افراد تھے جن کے پاس ’’نائیکوپ‘‘ کارڈ ہو، ان کے پاس پاکستان کا پاسپورٹ ہو اور وہ مذکورہ حلقے کے رجسٹرڈ ووٹر بھی ہوں،آن لائن ووٹنگ کی سہولت سے استفادہ حاصل کرنے والے پاکستانی آج 14 اکتوبر 2018 کو پاکستانی وقت کے مطابق، صبح آٹھ بجے سے شام 5 بجے تک اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکیں گے۔