تحریر ۔۔۔ شیخ توصیف حسین
کہاوت ہے کہ ایک دولت مند شخص اپنے علاقے میں ضرورت مند افراد کی ضرورت کو پورا کرنا اپنا فرض عین سمجھتا تھا جس کے اس اعلی ظرف کے چرچے ہر زروزبان پر عام تھے یہ سلسلہ اسی طرح جاری تھا کہ ایک دن ایک فقیر اُس دولت مند شخص کے پاس پہنچ کر کہنے لگا کہ میں نے آج تک یکمشت دس کروڑ روپے نہیں دیکھے لہذا آج آپ مجھے میری خواہش کے مطا بق یکمشت دس کروڑ روپے دکھا دو یہ سنتے ہی دولت مند شخص نے اپنے منشی کو حکم دیتے ہوئے کہا کہ تم فوری طور پر تجوری سے دس کروڑ روپے نکال کر اس فقیر کو دکھا دو دولت مند شخص کے اس حکم کو سنتے ہی منشی دوڑتا ہوا تجوری کی طرف گیا اور وہاں سے دس کروڑ روپے نکال کر فقیر کے سامنے رکھ دیے جس کو دیکھنے کے بعد فقیر وہاں سے جانے لگا تو اسی دوران دولت مند شخص نے فقیر کو آواز دیتے ہوئے کہنے لگا کہ ان روپوں کو بھی اپنے ساتھ لے جاؤ تم بھی کیا یاد رکھو گے کہ زندگی میں کسی دولت مند شخص سے پالا پڑا تھا یہ سن کر وہاں سے فقیر یہ کہتا ہوا خالی ہاتھ چلا گیا کہ تم بھی کیا یاد رکھو گے کہ تمھارا پالا بھی دولت کی ہوس کے پجاری سے نہیں بلکہ خداوندکریم کی خوشنودگی حاصل کرنے والے ایک فقیر سے پڑا تھا بالکل یہی کیفیت آج سے تقریبا پچیس تیس سال قبل صحافت سے وابستہ افراد کی تھی جو دولت کی ہوس کے پجاری بننے کے بجائے خداوندکریم کی خوشنودگی کی خاطر مظلوم اور بے بس افراد کی آ واز بن کر لاقانونیت کا ننگا رقص کرنے والے سرکاری وغیر سرکاری افراد کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہو جاتے تھے آپ یقین کریں یا نہ کریں لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے اُس وقت قانون شکن عناصر صحافت سے وابستہ افراد کو دیکھ کر ایسے سہم جاتے تھے جیسے سیاہ رات میں صبح کا پرندہ چونکہ وہ یہ بخوبی سمجھتے تھے کہ صحافت سے وابستہ افراد ان کے کالے کرتوتوں کو عیاں کرنا اپنا فرض عین سمجھتے ہیں وقت اسی طرح گزر رہا تھا کہ اسی دوران ضلعی حکومتوں کے ارباب و بااختیار نے ایک سوچی سمجھی سکیم کے تحت اس صحافت جیسے مقدس پیشے کو زمانے بھر میں رسوا کرنے کیلئے اُن افراد کو جو لا قانونیت کا ننگا رقص کرنے کے ماسٹر ماہنڈ تھے کوٹی وی چینل چلانے کے ساتھ ساتھ متعدد اخبارات نکالنے کی اجازت دینے میں مصروف عمل ہو کر رہ گئے یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مذکورہ ٹی وی چینل و اخبارات مالکان ان ارباب و بااختیار کے کالے کرتوتوں پر پردہ پوشی کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے دفاتروں کو طوائف کا کوٹھا بنا کر بیٹھ گئے جہاں پر آنے والے ہر شخص خواہ وہ منشیات فروش یا پھر فحاشی جیسا مکروہ دھندہ کرتا ہو کو یہ کہہ کر پریس کارڈ جاری کرنے میں مصروف عمل ہو کر رہ گئے کہ تو نوٹ دکھا ساڈا موڈ بنے جس کے نتیجہ میں صحافت جیسے مقدس پیشے سے وہ افراد بھی وابستہ ہو گئے جو صحافت جیسے مقدس پیشے جو درحقیقت ایک پیغمبری پیشہ ہے کے اغراض و مقاصد سے بھی ناواقف تھے اگر آپ حقیقت کے آ ئینے میں دیکھے تو یہ وہ افراد تھے جہنیں کالم لکھنا تو دور کی بات انھیں خبریں لکھنا بھی نہیں آتی قصہ مختصر اس مقدس پیشہ کو زمانے بھر میں رسوا کرنے میں ضلعی حکومتوں کے کرپٹ ترین ارباب و بااختیار کا ہاتھ ہے جن کی انتقامی کاروائی کا نشانہ بن کر یہ مقدس پیشہ جو ملک کا چوتھا ستون سمجھا جاتا تھا زمانے بھر میں رسوا ہو رہا ہے جبکہ دوسری جانب ضلعی حکومتوں کے ارباب و بااختیار جو کہ از خود کرپشن کی پیداوار ہیں لوٹ مار ظلم و ستم اور ناانصافیوں کی تاریخ رقم کرنے میں مصروف عمل ہیں اور وہ بھی اپنے اپنے علاقے کے مفاد پرست سیاست دانوں سے ملکر جس کا واضح ثبوت ضلع جھنگ ہے جو 1947سے لیکر آج تک پسماندگی کی راہ پر گامزن ہے جس کی تمام سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار سیوریج کا نظام تباہ و بر باد شہر بھر کے معروف چوکوں پر بسوں اور ویگنوں کے ناجائز اڈے قائم گھروں میں زہریلا پانی پینے سے لاتعداد افراد مختلف موذی امراض میں مبتلا محلوں اور بازاروں میں غلاظت کے انبار سرکاری ہسپتالوں میں غریب مریض بیڈوں کے نہ ملنے کے سبب پریشان حال بااثر افراد کا معروف چوکوں کے علاوہ بازاروں پر قبضہ راج قائم قصہ مختصر کہ ضلع جھنگ کی عوام اپنے تمام تر بنیادی حقوق سے محروم ہو کر بے بسی اور لا چارگی کی تصویر بن کر رہ گئی ہے جس کے نتیجہ میں ضلع جھنگ کی عوام نے سابقہ حکومتوں کے خوشامدی مفاد پرست سیاست دانوں کے کالے کرتوتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے پی ٹی آئی کے نامزد امیدواروں کی مکمل حمایت کرتے ہوئے اُنھیں بھاری اکثریت سے کامیابی سے ہمکنار کروانے میں اپنا اہم کردار ادا کیا ہے چونکہ اُنھیں یہ یقین ہے کہ پی ٹی آئی کا چیرمین جو صداقت امانت اور شرافت کا پیکر بن کر اپنے فرائض و منصبی ادا کرنے میں مصروف عمل ہے ان کو اپنے بنیادی حقوق دلوانے میں اپنا اہم کردار ادا کرے گا اور اس کے ساتھ ساتھ جھنگ کی عوام کو یہ قوی امکان ہے کہ وہ ون فائی جھنگ کے عملہ جو شہر بھر کے چوکوں پر شناختی کارڈ کے ساتھ ساتھ چوری شدہ موٹر سائیکلوں کے انجن نمبر چیک کرنے کے بجائے ہر موٹر سائیکل سوار خواہ وہ چور ہو یا پھر ڈاکو کے کاغذات چیک کرنے کے بہانے لوٹ مار کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں جن کے اس گھناؤنے اقدام کے نتیجہ میں شہر بھر میں ڈکیتی کی وارداتیں عوام کا مقدر بن کر رہ گئی ہیں کا احتساب موجودہ حکومت اپنا فرض عین سمجھ کر ادا کرے گی
بک گیا دوپہر تک بازار کا ہر ایک جھوٹ
اور میں شام تک بس ایک سچ کو لیئے یونہی کھڑا رہا