امجد پرویز ملک
سیکرٹری سینیٹ آف پاکستان
موجودہ بین الاقوامی تعلقات اور سفارتکاری صرف کسی ملک کے محکمہ خارجہ کی اکیلی ذمہ داری نہیں رہی بلکہ ریاستی ادارے اور بہت سے عوامل مل کر کسی ملک کا بین الاقوامی تشخص اور دو طرفہ تعلقات کے ساتھ ساتھ مختلف بین الاقوامی اداروں میں کردار اور حیثیت کا تعین کرتے ہیں۔ گلوبل ویلج کے اس دور میں سرحدیں اور رکاوٹیں ختم کرتے ہوئے پرنٹ ،الیکٹرانک اور اب سوشل میڈیا اس سلسلہ میں بہت اہمیت حاصل کر گیا ہے۔ اسی طرح روایتی سفارتکاری کے ساتھ ساتھ پارلیمانی سفارتکاری اور مختلف ممالک، اداروں اور تنظیموں کو ملک میں لاکر میڈیا کے بنائے ہوئے غلط تصورات کو ختم کرنا بھی ایک ناگزیر ضرورت بن گیا ہے۔ ایک اور شعبہ جو عام طور پر صوبائی یا مقامی حکومتوں یا پھر صرف وفاقی ترقیاتی اداروں کے رحم و کرم پر رہا ہے وہ غیرترقیاتی یافتہ علاقوں اور عوام کی سماجی اور اقتصادی ترقی ہے۔ پاکستان میں ہمیں گزشتہ کئی دہائیوں سے ان دونوں محاذوں پر خاصی مشکلات کا سامنا رہا ہے۔اس میں جہاں دوسری قوموں اور قوتوں کی ریشہ دوانیوں کا دخل رہا ہے وہاں پر ہماری اداراتی کمزوریوں اور انتظامی کوتاہیوں کا بھی بہت زیادہ حصہ ہے۔ پھر ایک اور وجہ اداراتی کشمکش اور توانائیوں کو یکسو کرنے کی بجائے تقابلی اور منفی رویے اور سوچ بھی انحطاط اور مسائل کی وجہ رہی ہے۔
سینیٹ آف پاکستان کے انتظامی سربراہ کی حیثیت سے مجھے یہ بتانے کا اعزاز حاصل ہو رہا ہے کہ ہم نے بحیثیت ایک منتخب اور انتظامی ادارہ کچھ عرصے سے نہ صرف اپنی اصلاح اور بہتری کی کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں بلکہ ملک کے گھمبیر مسائل اور چیلنجز میں بھی مثبت کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ سینیٹ آف پاکستان کی حالیہ کاوش ایشیائی پارلیمانی اسمبلی کی سیاسی امور کی کمیٹی اور ایشیائی پارلیمان کے قیام کی خصوصی کمیٹی کے اجلاس کا 28سے 31اکتوبر 2018 ء صوبہ بلوچستان کے شہر گوادر میں انعقاد ہے۔ جس میں 23ایشیائی ملکوں کے پارلیمانوں کے ممبران پر مشتمل وفود کے ساتھ ساتھ براعظم افریقہ کے ایک ملک کی پارلیمنٹ کے سپیکر اور براعظم یورپ اور یورپی تنظیم کے نمائندہ، فرانس کے سینیٹر کے ساتھ ساتھ دنیا میں سب سے بڑی پارلیمانی تنظیم آئی پی یو کے سیکرٹری جنرل بھی شرکت کر رہے ہیں۔
اتنے بڑے نمائندہ اجتماع کا انعقاد پاکستان کے دارالخلافہ یا کسی بھی صوبائی دارالحکومت میں ایک کامیاب کاوش ٹھہرائی جاتی۔ لیکن صوبہ بلوچستان کے شہر گوادر میں جہاں ابھی مواصلاتی رابطوں اور دیگر سہولتوں کا انتہائی فقدان ہے وہاں پر اتنی بڑی تعداد میں مختلف براعظموں اور تنظیموں کا سینیٹ آف پاکستان کی دعوت پر شریک ہونے کا فیصلہ اس بات کا عکاس ہے کہ سینیٹ نے ایک عرصے سے بین الاقوامی پارلیمانی اداروں، دو طرفہ پارلیمانی سفارتکاری اور مختلف علاقائی اور بین الاقوامی فورمز پر موثر شرکت اور کردار کی وجہ سے اپنا ایک کردار اور قدکاٹھ بنا لیا ہے۔ جبکہ آئی پی یواور سی پی اے میں پاکستان اپنے حصے کا روایتی کردار ہمیشہ سے ادا کرتا رہا ہے گزشتہ چند سالوں سے سینیٹ نے ایشیائی پارلیمانی اسمبلی میں لیڈر شپ رول ادا کیا ہے اور اس کے ہر اجلاس ،فورم، قرارداد یا اعلامیہ میں پاکستان اپنے موقف اور ترجیحات واضح طور پر بیان کروانے میں کامیاب رہا ہے۔پاکستان سینیٹ کی موثر حکمت عملی اور کردار کی وجہ سے اس فورم پر بھارت کا اثر ورسوخ نہ ہونے کے برابر رہا ہے اور اس نے کچھ عرصہ اے پی اے کے اجلاس میں شرکت سے بھی گریز کیاہے۔ تاہم 2017 ء میں ایشیائی پارلیمانی اسمبلی کی سیاسی کمیٹی کے ہونے والے اجلاس میں بھارت کا ایک اعلیٰ سطحی وفد شریک ہوا اور اس کے بعد اے پی اے کے ہر اجلاس اور میٹنگ میں بھارت بھی شریک رہا ہے۔گوادر میں ہونے والی میٹنگ میں ابھی تک بھارت نے اپنی شرکت کی تصدیق نہیں کی۔
ایشیائی پارلیمانی اسمبلی وقت کے ساتھ ساتھ نہ صرف اپنے نام اور ہیئت میں تبدیل ہوئی ہے بلکہ اس کی رکنیت اور دائرہ کار میں وسعت آتی گئی ہے۔1999ء میں بنگلہ دیش کے شہر ڈھاکہ میں ایشیائی پارلیمانوں کی تنظیم برائے امن کا قیام ہوا ۔2003ء میں پاکستان نے اس کی رکنیت حاصل کی اور اگلے ہی سال اس کا اجلاس اسلام آباد میں منعقد کرایا گیا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ اس تنظیم کا نام اور چارٹر تبدیل کر کے ایشیائی پارلیمانی اسمبلی اے پی اے بنائی جائے جس پر حتمی اقدام 2006ء میں تہران میں ہونے والے اجلاس میں کیا گیا۔کچھ عرصہ باقاعدگی اور موثر طریقے میں چلنے کے بعد جس میں پانچ سالانہ جنرل اسمبلی اجلاس شامل تھے یہ تنظیم سیاسی اور سفارتی مسائل کا شکار ہوگئی اور دو سال اس کے لازمی سالانہ اجلاس بھی نہ ہوسکے۔یہ وہ وقت تھا جب سینیٹ آف پاکستان نے ایک نئی سوچ اور حکمت عملی کے ساتھ اس کا سالانہ اجلاس اسلام آباد میں کرانے کا فیصلہ کیااور اے پی اےکی چھٹی اور ساتویں جنرل اسمبلی پاکستان میں منعقد کرائی۔ سینیٹ آف پاکستان کو دو سال کیلئے اے پی اے کا صدر بھی منتخب کیا گیا۔سال 2013-14 ء میں نہ صرف اس کے سالانہ اجلاس اسلام آباد اور لاہور میں ، جبکہ اس کی گورننگ کونسل کے اجلاس بھی باقاعدگی اور کامیابی سے منعقد کرائے گئے۔ لاہور میں ہونے والی ساتویں جنرل اسمبلی نے متفقہ طور پر پاکستان کی تجویز اور اصرار پر اے پی اے کی خصوصی کمیٹی برائے تشکیل ایشیائی پارلیمان کو منظور کیا اور ساتھ ہی یہ فیصلہ کیا کہ اس خصوصی کمیٹی کا مستقل سیکرٹریٹ سینیٹ آف پاکستان میں رہے گا۔گزشتہ سال سے ترکی اے پی اے کا صدر ہے اور پاکستان سیاسی امور کی کمیٹی کے سربراہ کے طور پر اے پی اےکا نائب صدر ہے۔سینیٹ آف پاکستان نے اگلے سالوں کیلئے بھی اس تنظیم کے ذریعے موثر پارلیمانی سفارتکاری کا ٹھوس منصوبہ بنا رکھا ہے اور دوبارہ اس کی صدارت 2019 ء سے پاکستان کو ملنے کی قوی امید ہے۔
گزشتہ کچھ عرصے کی کاوشوں اور اے پی اےکی تاریخ کے بارے کچھ بتانے کے بعد اب میں اگلے چند روز میں انشاء اللہ کامیابی سے منعقد ہونے والی میٹنگز کے پس منظر اور اہمیت کے بارے میں کچھ بتانا چاہوں گا۔ سب سے پہلے اور سب سے اہم روایتی سوچ اور سہل پسندی کو چھوڑ کر ایک جرات مندانہ فیصلہ تھا جو سینیٹ کے چیئرمین جناب صادق علی سنجرانی صاحب نے چند ماہ پہلے کیا ۔ اس سال کی میٹنگز کو اسلام آباد یا کسی ترقی یافتہ صوبائی دارالحکومت میں کرانے کی بجائے جناب سنجرانی صاحب نے یہ فیصلہ کیا کہ انہیں صوبہ بلوچستان کے شہر گوادر میں منعقد کیا جائے۔ اس فیصلے کے پیچھے تین عوامل کارفرما تھے۔
اس بات کا سہرا چیئرمین سینیٹ، جناب صادق سنجرانی صاحب کے سرپر ہے جنہوں نے گوناگوں چیلنجز کے باوجود یہ فیصلہ کیا کہ اس قدر اہمیت کے حامل بین الاقوامی اجتماع کو دارلحکومتوں کے آرام دہ ماحول میں منعقد کرنیکی بجائے، کانفرنس کا انعقاد گوادر کی بندرگاہ کے شہر میں کیا جائے ، دراصل یہ فیصلہ اے پی اے کے چارٹر کی تعمیل کا ہی ایک جزو ہے جس کا مقصد علاقائی رابطے اور شمولیت کے تصور کو عملی شکل دینا ہے۔
نظریاتی طورپر دیکھا جائے تو پاکستان کے سینیٹ کی منتخب اور انتظامی قیادت نے اے پی اے کوگوادر جیسے اہم شہر میں منعقد کرنے کا جو فیصلہ کیااس کے پس پشت تین اہم مقاصد کار فرما ہیں۔پہلا یہ کہ بلوچستان اور گوادر جیسے انتہائی اہمیت کے حامل خطوں کی بیش قیمت صلاحیتوں اور وسائل کو قومی دھارے میں لانے کے لیے وفاق کے اس ایوان اور اس کی وفاقی اکائیوں کے درمیان ایسا مستحکم رابطہ قائم کیاجاسکے جو حکومتی کاوشوں کو بھی معاونت فراہم کرے۔دوسرا یہ کہ ، اقتصادی سرگرمی اور تجارتی راہداری کی آما جگاہ بننے والے اس خطے کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر منظر عام پر لایا جاسکے اور تیسرایہ کہ ، ایشیا اور خطے کے دیگر دوستوں اور شرکا کو ایک موقع ملے کہ وہ بے شمار سرمایہ کاری اور تجارتی صلاحیت کے حامل گوادر کے اس علاقے کے بارے میں براہ راست حقیقی معلومات حاصل کریں اور ازخود مشاہدہ کرسکیں کیونکہ یہ خطہ سرمایہ کاری اور تجارتی گزرگاہ کی حیثیت سے بہت اہم ہے ۔چونکہ سینیٹ سیکرٹریٹ کے پاس وسائل اور افرادی قوت محدود تھی ، لہٰذا انتظامی اور لاجسٹک نقطہ نظر سے اے پی اے میٹنگز کا گوادرمیں انعقاد ایک چیلنج سے کم نہیں تھا۔تاہم، ان سب چیلنجز کے باوجود میٹنگز کے انعقاد کی بھرپور تیاری ایک طرف سینیٹ سیکرٹریٹ کی صلاحیتوں اور بحیثیت ایک ٹیم سینیٹ سیکرٹریٹ کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کا جواب ہیں۔ دوسری طرف یہ اس ہم آہنگ طریقہ کار کی عکاس ہیں جو سینیٹ لیڈر شپ نے اس بین الاقوامی کانفرنس کوموزوں انداز میں کرانے کیلئے اختیارکیا اور مقامی ، صوبائی اور قومی سطح پر کوششوں کو مربوط شکل فراہم کی۔یقیناًاس اہم کانفرنس کے انعقاد میں پارلیمانی ، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان باہمی تعاون کے ساتھ ساتھ ملک کے سکیورٹی اور دفاعی اداروں کا تعاون بھی شامل ہے ۔
ہم وزیر اعظم پاکستان کے مشکور ہیں جنہوں نے اے پی اے کے وفودکو قومی اور ریاستی مہمانوں کا رتبہ دیا۔تاکہ وفود کے لیے ہر قسم کے ممکنہ سکیورٹی انتظامات کیے جائیں۔ہم سندھ اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں خاص طورپر چیف سیکرٹری بلوچستان ، مقامی سینیٹر اور مقامی اراکین صوبائی اسمبلی مقامی انتظامیہ ، قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں بری، بحری اور فضائی افواج اور جنوبی کمانڈ کے انتہائی ممنون ہیں جنہوں نے اپنی بھرپور معاونت اور تعاون فراہم کیا۔گوادر جیسے مواصلاتی نظام اور انفراسٹرکچر کی کمیابی کے مقام پر کانفرنس منعقد ہونا ایک خواب تھا جو انشاء اللہ سچ ہونے جارہا ہے۔ سول سروس اور پارلیمانی سروس میں انتظامی سطح پر اپنے طویل عرصہ ملازمت کے دوران میں نے پارلیمانی ارتقا ء کے ساتھ ساتھ انتظامیہ کی ترقیاتی کاوشوں کو دہائیوں سے بنتے اور بدلتے دیکھا ہے۔
ہمیشہ ایک خواہش رہی کہ پارلیمنٹ کا ادارہ عوام الناس تک رسائی حاصل کرے اور محروم طبقات اور علاقوں کے لیے سماجی و اقتصادی ترقی کے حصول میں ایک سرگرم عنصر بنے تاکہ یہ عوام الناس کے دلوں میں جگہ بنا سکے۔ لیکن اپنے اس مقصد کو حاصل کرنے میں کسی قسم کے مقامی یا صوبائی حکومتی کردار میں مداخلت نہیں کی جائے بلکہ ایک موافق ماحول قائم کیاجائے جس کے ذریعے وہ تمام دشواریاں ختم ہوجائیں جو غلط فہمیوں اور معلومات کی کمی کے باعث پیدا ہوتیں ہیں۔
اے پی اے کے گوادر میں انعقاد کے ساتھ ہی سینیٹ نے مقامی اور علاقائی ترقی کے ایک نئے تصور کی جانب پہلا قدم بڑھایا ہے جو’’ ہم آہنگ ترقی ‘‘کا ہے۔جبکہ مقامی ادارے اور حکومتیں اپنا کردار اس طرح ادا کرتیں رہی ہیں جو آئینی اور قانونی طور پر صرف ان کو ہے اس میں وفاقی پارلیمانی ادارے ایک ڈھال یا موثر ترجمان بن کر محروم علاقوں اور طبقات کیلئے آسانیاں پیدا کرتے ہیں اور ان کی راہ میں حائل رکاوٹیں، حقیقی یا منفی میڈیا تصورات پر مبنی ، سب کو دور کرتے ہیں۔ گوادر میں اس کانفرنس کا انعقاد کرا کے سینیٹ نے اتنے ممالک کے وفود کو زمینی حقائق ،سکیورٹی صورت حال اور سرمایہ کاری کے مواقع کے ذاتی مشاہدے کا موقع فراہم کیا۔ ساتھ ہی ساتھ اتنی تعداد میں غیر ملکی مہمانوں کو لانے ،پہنچانے اورٹھہرانے کی نئی مثال قائم کی۔ میرے لئے سب سے خوش کن بات یہ ہے کہ کانفرنس کی تیاریوں کے دوران یہ پتہ چلنے پر کہ انٹرنیٹ کی سہولیات گوادر میں بہت محدود تھیں سینیٹ لیڈر شپ کی طرف سے متعلقہ وفاقی محکموں کو زور دینے پر کئی گنابڑھا دی اور جلد فائبر آپٹک کا افتتاح چیئرمین کریں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ بجلی کی دستیابی کیلئے متبادل ذرائع ہوں یا صوبائی انتظامیہ کی طرف سے سڑکوں اور دیگر انفراسٹرکچر کی مرمت یہ سب خوش آئند ہے۔ تاہم پائیدار بنیادوں پر انفراسٹرکچراور توانائی کے وسائل کی بلا تعطل فراہمی کی طرف یہ ابتدائی قدم ہیں۔
عظیم براعظم ایشیا کو اس کی کھوئی ہوئی شان و شوکت بحال کرانا بھی ایک خواب ہے۔ صدیوں سے ایشیا علم و حکمت کی آماجگاہ رہا ہے۔ ہماری متنوع تاریخ ، منفرد ثقافتی تغیرات ، ذرخیز علم و ادب ، فنون، فن تعمیریہ وہ سب عوامل ہیں جو دنیا بھر سے ایشیا کو ملنے والی تعریف اوررشک کا باعث رہے ہیں۔ لیکن پھر ایسا دور آیا جب ہماری اپنی کوتاہیوں کے باعث نو آبادیاتی طاقتوں نے مختلف شکلوں اور ناموں کے ساتھ اس شان و شوکت سے ایشیا کو محروم رکھا۔
اگرچہ 21 ویں صدی ایک بار پھر براعظم ایشیا کو بین الاقوامی امور میں ابھرتا کردار ادا کرتا دیکھ رہی ہے ، لیکن ابھی بھی ترقی میں حائل رکاوٹوں اور سماجی و اقتصادی محرومیوں اور عدم مساوات کو ختم کرنے کے لیے طویل سفر باقی ہے۔
ایشیائی پارلیمنٹ کا قیام مستقبل بعید میں بہت آگے جا کر نظر آتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ علاقائی تعاون کے بغیر سماجی و اقتصادی استحکام اور پائیدار ترقی کا حصول کوئی ایسا امرنہیں جسے ہم اپنی مرضی سے چن لیں یا چھوڑ دیں۔ ہمارے غیر معمولی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اور امن و ترقی کے مروجہ یا ابھرتے ہوئے ماڈلز میں علاقائی تعاون پائیدار ترقی کے لیے لازمی عنصر ہے۔ جہاں ہماری حکومتیں یا ایگزیکٹو اور یونائیٹڈ نیشن ،ایشیا میں مسائل کو حل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئیں ہو سکتا ہے ایشیا کی اکثر ملکوں کی پارلیمنٹس، ایشیائی پارلیمانی اسمبلی اور آئی پی یو کے تعاون یا راہنمائی سے دیرینہ مسائل کو حل کرنے اور امن و ترقی کی نئی راہیں کھولنے میں راہنما کردار ادا کریں۔ خواتین و حضرات علاقائی امن اور ترقی کے لیے پارلیمانی قیادت کے عنوان سے منعقد ہونے والی یہ کانفرنس ، میری فہم کے مطابق اسی منطق کی حامل ہے۔ آخر میں میں گوادر میں ہونے والی سیاسی امور کی سٹیڈنگ کمیٹی میں پیش کئے جانے والی نئی قرارداد کا ذکر کروں گا۔ جس کا عنوان ہے۔
’’ ترقی کیلئے جمہوریت ‘‘: اس مجوزہ قرار داد میں اس بات کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا کہ جمہوریت ایک ایسا طرز حکمرانی ہے جس کی بدولت انسانی ترقی ، غربت کے خاتمے اور پر امن معاشروں کے قیام میں مدد ملتی ہے ۔قرار داد میں اس بات کی اہمیت کو بھی تسلیم کیا گیا کہ جمہوریت کے استحکام کیلئے پارلیمانوں کا مرکزی کردار ہے اور جمہوریت کو ترقی و خوشحالی کیلئے اہم سمجھا جاتا ہے ۔اس قرارداد میں نئی اور اہم چیز یہ ہے کہ جمہوریت اگرچہ تمام طرز حکمرانی میں سب سے بہتر ہے لیکن یہ بذات خود آخری مقصد نہیں بلکہ انسانی اور علاقائی ترقی وسائل کی منصفانہ تقسیم سب علاقوں اور اقوام کو ساتھ لے کر چلنے اور آزادانہ تجارت کے راستے میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے،نئے وسائل آمدورفت اور ذرائع روزگار ،کاروبار و تجارت وہ اعلی مقاصد ہیں جن کے حصول میں جمہوری اداروں کو بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔