پہلی قومی رائٹرز تربیتی ورکشاپ کا آنکھوں دیکھا حال 

Published on October 30, 2018 by    ·(TOTAL VIEWS 295)      No Comments

تحریر ۔ام حبیبہ، خانیوال 
پرانے وقتوں کی بات ہے کہ ایک جنگل میں محفل لگی ہوئی تھی اور ہر جانور اپنے پسندیدہ پھل کے بارے میں بتا رہا تھا کہ اسے فلاں پھل پسند ہے ۔ لومڑی کو انگور کھانے کا بڑا شوق تھا سو اس نے بھی اپنی پسند بتا د ی۔ اب جنگل کے راجا کی طرف سے حکم صادر ہوا کہ ہر جانور اپنی اپنی پسندکا پھل توڑ کر لائے ۔ سب جانور چل دےئے ۔لومڑی کو بھی چلتے چلتے ایک انگورکی بیل نظر آئی جو درخت پر چڑھی ہوئی تھی اور انگور اس کے قد سے بہت اونچے تھے ۔ اس نے لاکھ کوشش کی لیکن انگور نہ توڑ سکی۔ اتنی دیر میں سب جانوروں کی واپسی شروع ہو گئی تو مجبوراً اسے بھی واپس جانا پڑا ۔ سب جانو روں کے ہاتھ میں پھل تھے لیکن لومڑی کے ہاتھ خالی تھے۔ جنگل کے راجا نے وجہ پوچھی تو اس نے انتہائی ڈھٹائی سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’مجھے تو انگور کھانے کا شوق ہی نہیں تھا او ر وہ تو ویسے بھی اگرمیں نے کھانے ہوتے تو پہلے ہی اس کا انتظام کر لیتی‘‘
پاکستان کی سرزمین ہر لحاظ سے زرخیرہے۔چاہے وہ سائنسی یا تعلیمی ‘کھیل کا میدان ہو یا سیاسی‘شوبز ہو یا ادب کا میدان۔۔ اس وقت ملک عظیم میں بے شمارادبی و فلاحی تنظیمیں کام کر رہی ہیں اور ہر تنظیم اپنے وسائل کے مطابق اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ اور گاہے بگاہے ادبی سرگرمیوں کے سلسلہ میں تقریبات کا انعقاد کرتی رہتی ہیں۔ ان تنظیموں میں پاکستان رائٹرز کونسل‘پاکستان رائٹرز ونگ‘رائٹرز ویلفےئر فاؤنڈیشن اینڈ ہیومن رائٹس اور کرن کرن روشنی اور غازی ہیومن رائٹس ویلفےئر سوسائٹی (رجسٹرڈ)شامل ہیں۔ ۔گو کہ یہ ادبی تقریبات تمام رائٹرز کو ایک چھت کے نیچے جمع کرنے کا ایک بہانہ ہے کیونکہ آجکل کے کمپیوٹرائزڈ دورمیں انسان فیس بک اور موبائل کے ذریعے تو ایک دوسرے کی خیریت دریافت کر سکتا ہے لیکن بالمشافہ ملاقات صرف یہی تقریبات ہی فراہم کرتی ہیں۔اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ جس طرح فیس بک چلانے کے لیے انٹرنیٹ کنکشن ضروری ہے بالکل اسی طرح ادیبوں کی بالمشافہ ملاقات کے لیے ایسی تقریبات کا انعقاد بھی بہت ضروری ہے ۔ ۔۔اسی طرح کی ایک خوبصورت تقریب گزشتہ دنوں بلدیہ خانیوال میں غازی ہیومن رائٹس ویلفےئر سوسائٹی (رجسٹرڈ) کے زیر اہتمام ہوئی ۔یہ ایک ملکی سطح کی یادگار اور خوبصورت تقریب تھی کیونکہ اس تقریب میں ملک بھر سے رائٹرز شاعر‘صحافی اور سکالرز نے شرکت کی تھی۔میرے خیال میں اپنی نوعیت کی یہ واحد تقریب تھی جس میں مختلف ادبی تنظیموں کے سربراہان نے شرکت کی تھی اور تقریب کو گل وگلزار بنا دیا۔ اگرچہ تقریب کا وقت 9.30ہی طے تھا لیکن چونکہ معزز مہمانوں نے دور دراز کے علاقوں سے آنا تھا لہٰذا ان کی آمد کی وجہ سے تقریب کو لیٹ شروع کیا گیا جو کہ انتظامیہ کا بہت اچھا فیصلہ تھا کہ انہوں نے مہمانوں کو اہمیت دی۔ باقی اکثر تقریبات چاہے وہ ادبی ‘سیاسی یا شادی بیاہ کی ہوں وہاں پر مہمانوں کا انتظار ضرور کیا جاتا ہے اوردیر سے پروگرام شروع ہونا کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہوتا۔ ۔۔۔۔۔چونکہ گرامی قدرمہمان وقفہ وقفہ سے آ رہے تھے اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا کہ رجسٹریشن کاؤنٹر بنانے کی بجائے مہمانوں سے ان کی نشست پر جا کر حاضری لگوائی جائے او ر انہیں وہیں تحائف دےئے جائیں۔۔۔اور اس کام کی ذمہ داری حافظ عثمان علی معاویہ (حافظ ابن یوسف ) کو سونپی گئی جنہوں نے بڑی خوش اسلوبی سے نبھائی ۔ ۔۔ چونکہ مہمانوں کی آمد کاسلسلہ تقریب کے دوران جاری رہا اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا کہ جن مہمانوں کو گفٹ نہیں دےئے ان کو تقریب کے آخر میں دےئے جائیں گے اور یہ ذمہ داری آفاق احمد خان نے بخوبی نبھائی جس کے چشم دید گواہ پاکستان رائٹرز ونگ اور کرن کرن روشنی کی معزز شخصیات بھی ہیں ۔۔۔اگر کسی مہمان کو گفٹ نہیں ملا تو اس میں انتظامیہ کی کوئی نااہلی یا غلطی نہیں کیونکہ اکثر ذاتی پروگرام (شادی بیاہ) میں بھی ایسا ہو جاتا ہے کہ انسان ہر شخص کو وقت نہیں دے پاتا اور نہ ہی اسے کوئی تحفہ دینا یاد رہتا ہے کیونکہ انتظامات کی مصروفیت ہی اس کی مت مار دیتی ہے۔۔اس لیے یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔ ۔۔۔۔پروگرام کی نظامت سلیم یوسف ‘عمارہ کنول اور ڈاکٹر مظفر حسین بابر نے بہت احسن طریقہ سے سر انجام دی۔دور دراز کا سفر کرکے مہمان جو تھکے ہوئے تھے ان کے اندر انرجی بھرنے کیلئے انہیں وہ جوش دلاتے رہے تاکہ وہ چوک و چابند رہیں۔۔ پروگرام کی صدارت انتہائی شفیق ہستی شیریں زباں شاعر جناب زاہد شمسی جبکہ ملک عظیم کے مایہ ناز کالم نگار‘ناول نگار عزت مآب جناب سجاد جہانیہ مہمان خصوصی تھے جبکہ مہمان اعزاز میں ملک عظیم کے نامور سکالر‘محقق جناب مرزا حبیب ‘جناب حاجی محمد یوسف صدیقی اور جناب جاوید فخری تھے۔۔ پروگرام کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا جس کی سعادت حافظ فواد فاروق نے حاصل کی اور اس کے بعد سرور کونین کے حضور ہدیہ نعت پیش کرنے کی سعادت شہزا د اسلم راجہ نے حاصل کی۔۔۔۔اس کے بعد لیکچر کا سلسلہ شروع کیا گیا ۔۔انتظامیہ نے اگرچہ ایک ترتیب بنائی ہوئی تھی کہ فلاں وقت فلاں معزز مہمان کا لیکچر ہو گا لیکن بوجہ مجبوری اس میں تھوڑی سی تبدیل کرنی پڑی چونکہ پہلے سیشن میں جناب زاہد حسن کا لیکچر تھا لیکن ان کی آمد ابھی لیٹ تھی جس کی وجہ سے انتظامیہ کو اپنی ترتیب تبدیل کرنا پڑی ۔ جو اتنا بڑا ایشو نہیں کہ انسان بحث میں پڑے اور اکثر بڑے بڑے پروگرامز میں ایسا ہو جاتا ہے اور ویسے بھی پروگرام کی انتظامیہ کسی کی ماتحت نہیں ہوتی وہ ترتیب میں تبدیلی کر سکتی ہے۔ ۔۔۔۔۔ اس تقریب کی سب سے بڑی خوبی جو مجھے پسند آئی وہ یہ کہ سب سے پہلے نظامت کرنے والو ں نے لیکچرز کو ترجیح دی ا س کے بعد درمیان میں سپاسنامہ کو پیش کیا گیا تاکہ لوگ انتہائی انہماک سے اس کو سن سکیں ۔ سب سے پہلا لیکچر نوجوان سکرپٹ رائٹر جناب اسعد نقوی کا تھا اسعد نقوی انتہائی کم عمر سکرپٹ رائٹر ہیں جو سٹی42کے لیے لکھتے ہیں۔ ان کا لیکچر سب نے بڑے ہی انہماک سے سنا اور صدر محفل نے بہت زیادہ تعریف کی اور مبارکباد پیش کی۔۔۔اس کے بعد تقریب کو آگے بڑھتے ہوئے دوسرے لیکچر کے لیے شعبہ صحافت میں ایک معروف نام جناب احتشام شامی کو دعوت دی گئی جن کا موضوع ’’ادب و صحافت ‘‘ تھا۔ انہوں نے ادب و صحافت پر بہت خوبصورت لیکچر دیا ۔ انہوں نے کہا کہ ہر ادیب صحافی نہیں ہوتا اور ہر صحافی ادیب نہیں ۔لیکن ہمارے ہاں ادب و صحافت کو یکجا کر دیا گیا ہے ۔ ۔۔۔اس کے بعد مظفر حسین بابر نے تقریب کو آگے بڑھاتے ہوئے سپاسنامہ پیش کرنے کے ابن نیاز کو بلایا جو کہ اس تقریب کی منیجمنٹ کمیٹی کے سربراہ تھے۔ اگرچہ کسی بھی تقریب میں سپاسنامہ پہلے پیش کیا جاتا ہے لیکن یہاں ایک نئی روایت کو جنم دیا گیا کہ سپاسنامہ کو دو لیکچر کے بعد پیش کیا گیا تاکہ حاضرین توجہ سے سن سکیں جو کہ نقیب محفل کا بہت اچھا فیصلہ تھا۔۔۔۔۔اس کے بعد منڈی بہاؤالدین سے تشریف لائے ہوئے شاعر جناب ادریس قریشی کو سٹیج پر آنے کی دعوت دی گئی جنہوں نے موقع غنیمت جانتے ہوئے حاضرین کو اردو الفاظ کے رموزات کے بارے میں بتا نا شروع کیا جو کہ ایک بہت ہی مفید معلومات تھیں ۔اس کے بعد انہوں نے اپنا کلا م سنانا شروع کیا جسے حاضرین محفل نے بہت سراہا۔۔۔ اس کے لیکچر کے لیے دنیا ادب کے چمکتے ستارے جسے دنیا بابائے ادب کے نام سے جانتی ہے میری مراد جناب عبداللہ نظامی سے ہے ۔۔ان کو شعبہ بچو ں کے ادب کے حوالہ سے لیکچر کے لیے مدعو کیا گیا ۔۔ انہوں نے لیکچر سے پہلے سب مہمانوں کا شکریہ ادا کیا ۔۔۔اس کے بعد انہوں نے کہا کہ موجود ہ دور مادہ پرستی ہے اور ایسے دور ایسی تقریبات کسی نعمت سے کم نہیں ‘ہمیں اپنے بچوں کو نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ ادب اور کتاب سے دوستی کے بارے میں کہا جائے اور انہیں ترغیب دی جائے تاکہ بچوں کے اندر لکھنے کی صلاحیت ہے وہ کھل کر سامنے آئے ۔ ۔انہوں نے تقریب میں موجود ادیبوں پر زور دیا کہ بچوں کے لیے بہترین ادب ترویج دیں ۔۔۔پہلے سیشن کے اختتام سے پہلے جناب سجاد جہانیہ نے خطا ب کرتے ہوئے کہا کہ ایسی خوبصورت ورکشاپ کا انعقاد ہونا چاہیے اس سے انسان کوسیکھنے کے لیے بہت کچھ ملتا ہے اور نئے لکھنے والوں کو رہنمائی ملتی ہے ۔۔اس کے بعد چند معزز مہمانوں میں ایوارڈز تقسیم کیے گئے اور یوں پہلے سیشن کا اختتام ہوا۔۔۔۔۔مہمانوں کے لیے خوبصورت اور مزے دار کشمیری چائے کا انتظام کیا گیا ۔۔۔۔یہ کسی بھی ورکشاپ میں پہلی بار کیا گیا تھا کہ مہمانوں کی تھکاوٹ دور کرنے کے لیے انہیں کشمیری چائے پیش کی گئی۔۔۔۔۔ اس کے بعد دوسرے سیشن کا آغاز ہوا ۔۔۔یہاں یہ بات بتانا ضروری سمجھتی ہوں کہ ورکشاپ کے کل چار سیشن تھے لیکن وقت کی کمی کے باعث صرف دو سیشن کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ملتان میں جناب مرزا یاسین بیگ کی ایک تقریب تھی جس میں مہمانوں نے شرکت کرنی تھی۔۔۔اس لیے آخری تین سیشن کو یکجا کر کے ایک سیشن بنا دیا گیا ۔ دوسرے سیشن کی صدارت کے لیے نامور بزرگ مصنف اور سفیر ادب جناب حاجی محمد لطیف کھوکھر کو کرسئی صدارت سونپی گئی جبکہ مہمان خصوصی میں میاں عبدالوحید عمرانہ ‘زاہد شمسی ‘میاں اجمل عباس شامل تھے۔۔۔ چونکہ ملتان میں تقریب کی وجہ سے جناب زاہد حسن مرزا یاسین بیگ کے ہمراہ ملتان چلے گئے جس کی وجہ سے دوسرے سیشن میں ان کا لیکچر نہ ہو سکا۔۔۔ اور انتظامیہ نے متبادل کے طورپر جناب شہزاد عاطر کو دعوت دی گئی جنہوں نے نہایت خوش اسلوبی سے ’’فکری مضمون کیسے لکھا جائے ‘‘پر خوبصورت لیکچر دیا ۔۔ان کے پاس علم کا ذخیرہ ہونا کا سبب تھا کیونکہ دوسرے سیشن کے شروع انہیں بتایا گیا تھا کہ آپ نے لیکچر دیناہے۔۔۔ان کے لیکچر کو حاضرین اور خصوصی طورپر صدر محفل‘مہمان خصوصی نے بہت سراہا۔۔۔دوسرے سیشن میں حسیب اعجاز عاشر کا لیکچر تھا لیکن وہ کسی مجبوری کی وجہ سے نہ آسکے اور ایک لیکچر ندیم نظر صاحب کا بھی تھا لیکن ان کے بقول انہیں تاریخ اور دن کی کنفیوژن تھی جس کی وجہ سے وہ تقریب میں تشریف نہیں لا سکے ۔ حالانکہ انتظامیہ کی طرف سے فیس بک پر بار بار انہیں خوش آمدید کہا جاتا رہا اور تاریخ اور دن کے بارے میں بھی لگایا گیا دعوت نامہ کو بھی بار بار فیس بک پر شےئر کیا جاتا رہا لیکن اس کے باوجود انہیں کنفیوژن رہی۔۔ان احباب کی کمی کو پوری کرنے کے لیے تقریب کو آگے بڑھاتے ہوئے لیکچرز کے لیے جناب رشید احمد نعیم اور رشید اللہ نوری کو لیکچر کے لیے دعوت دی گئی جنہوں نے بہت خوبصورت انداز میں لیکچر دےئے ۔۔۔ اس کے علاوہ تقریب سے جاویدفخری ‘ میاں عبدالوحید عمرانہ ‘ملک سلیم ناصر‘ حاجی محمد یوسف صدیقی نے بھی اظہار خیال کیا ۔آخر میں سعدیہ ہما شیخ نے اپنی خوبصورت نظم سنا کر محفل کا اختتام کیا ۔لاہور سے آئے ہوئے معزز مہمانوں نے ملتان تقریب میں شرکت کے لیے جانا تھا اس لیے ان کے با ر بار اصرار پر تقریب کو مختصر کر دیا گیا اور شرکاء میں ایوارڈز تقسیم کرنے کا مرحلہ شروع کر دیا گیا ۔ اس کے ساتھ مختصر وقت میں پاکستان رائٹرز ونگ نے غازی ہیومن رائٹس ویلفےئر سوسائٹی کی پروگرام منیجمنٹ کمیٹی میں پذیرائی کے لیے ایوارڈز تقسیم کرکے بہت اچھی روایت ڈالی یقیناًایسا ہر تقریب میں ہونا چاہیے اس سے منتظمین کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے ۔امید کرتی ہوں کہ اس طرح کی خوبصورت تقریبات آئندہ بھی منعقد ہوتی رہیں گی۔

Readers Comments (0)




WordPress Themes

Weboy