تحریر :مہر سلطان محمود
لکھنے کا مقصد حکومت وقت و انتظامیہ کو مسائل وحقائق سے آگاہی کیساتھ عوام میں شعور پیدا کرنا ہے تاکہ وہ معاشرے کی بہتری میں اپنا مثبت کردار ادا کرسکیں ضلع قصور میں تعینات ہونے والے دونوں انتظامی افسران کو خوش آمدید اس امید کیساتھ کہ وہ اس ضلع کی بہتری کیلئے تمام تر کوششوں کو برؤے کار لائیں گے کپتان قصور پولیس بلاشبہ بہترین صلاحیتوں کے مالک ہیں مگر ان کو آتے ساتھ ہی سماج دشمن عناصر نے جہاں سلامی دیکر ایک چیلنج دیا وہاں پر انکی فورس نے راجہ جنگ میں ایک بے گناہ نوجوان کی جان لیکر اپنا روایتی چہرہ دکھا کر مشکلات پیدا کیں ہیں کپتان سے امید واثق ہے کہ وہ بدنماداغ کے ذمہ داروں کے خلاف حقیقت پر مبنی کاروائی کرنے کیساتھ سماج دشمن عناصر کی سرکوبی میں بھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے اس حوالے سے ماضی کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرنا کپتان قصور پولیس کیلئے شاید بہترین ثابت نہ ہو ، وارداتوں کا نان سٹاپ سلسلہ روکنا بھی مشکل ترین ٹاسک ہے ڈپٹی کمشنر قصور بھی ایک کہنہ مشق آفیسر ہیں مگر ڈسٹرکٹ قصور پنجاب کے گڈگورننس کے لحاظ سے بگڑے ہوئے اضلاع میں شامل ہے ان کی صلاحیتوں کا امتحان ہوگا لفظی خوبصورتی کے ماہر افسران و ملازمین موسمی پھپھوندی کی طرح سرخم کرتے نظر آئیں گے حقیقت سے کجا دورہوں گے چیلنجز میں محکمہ مال کے پٹواری ودیگر عملہ ،محکمہ ایجوکیشن میں جعلی ڈگریوں کے ماسٹر مائنڈز کلرکس ،محکمہ ہیلتھ کا چکر باز عملہ کے علاوہ تمام قصبہ جات اور شہروں کے صفائی ستھرائی کے ذمہ داران شامل ہوں گے سیاسی مداخلت سے بھی نمٹنا ہوگا تجاوزات کے خلاف آپریشن جس میں شہر قصور میں روہی نالے کنارے کچی آبادیوں کو نشانہ بناکر طاقتوروں کو کھلی چھٹی فراہم کی گئی ہے تجاوزات آپریشن میں غریبوں کی ریڑھیاں الٹانے کی بجائے طاقتوروں کے خلاف کاروائی کی جائے جسطرح للیانی اڈہ میں واقع ڈرائیور ہوٹل کیساتھ کی گئی ہے۔محکمہ ایجوکیشن کا کلرک اسلم عرف (ریڑھا)جو کہ جعلی ڈگریوں کے علاوہ بوگس سروس بکس بنا کر سنیارٹی میں ردودل کرنے پر پکڑا گیا ہے کے خلاف فیصلہ کن کاروائی شامل ہیں یاد رہے محکمہ ایجوکیشن اپنے پیٹی بھائیوں کو مکھن میں سے بال کی طرح نکال لیتے ہیں ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ آفس کے چلاک سٹاف کوسمجھنا شامل ہیں ۔بجلی چوروں کے خلاف ذبردست کاروائی خوش آئیند ہے ۔
سب سے بڑا چیلنج عرصہ داراز سے ایک ہی سیٹ پر قابض متعدد ملازمین جو اندھیرنگری کے بے تاج بادشاہ بن چکے ہیں سیاسی سفارشوں کا جال بے انتہاء پارٹی بازی سے ہٹ کر مفادات کی بنیاد پر اسسٹنٹ کمشنرز کے ہیڈ کلرکس جو کہ پٹواریوں کی تعیناتی دیگر کاموں میں کرشماتی صلاحیتیں دکھا کر اب تک جیبیں بھرتے آرہے ہیں تحصیل کوٹ رادھاکشن میں جب سے تحصیل بنی ہے عرصہ اگیارہ سال سے ایک رمضان نامی شخص ہیڈ کلرک کی سیٹ پر قابض ہے شہر کوٹ رادھاکشن اور جو موضع جات کمپیوٹرائزڈ نہیں ہوئے ان پر پٹواریوں کی تعیناتی اپنی منشا کے مطابق کرواتا ہے سروس رول عرصہ تین سال کو جوتے کی نوک پر اڑا چکا ہے ڈپٹی کمشنر صاحبہ کو تمام اداروں سے یہ تفصیلات منگوانی چاہیے کہ بااثر سیٹوں پر کون سے افراد کتنے عرصہ سے قابض ہیں اورگڈ گورننس کی فضاؤ ں کو گدلا کرکے عوام کی امیدوں کے چراغوں کو بجھا کر قابل افسران کی بدنامی کا باعث ہیں بعض ملازمین جو کہ ہیلتھ ایجوکیشن کے محکمہ جات میں عرصہ داراز سے تعینات ہیں کام چور ہو چکے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ تمام ہسپتالوں و محکمہ ایجوکیشن میں سٹاف پر تین سالہ پالیسی نافذ کرکے گڈگورننس کو بہتر بنایا جائے ۔محکمہ ایجوکیشن میں وزیراعظم کی کفایت شعاری پالیسی کی دھجیاں اڑا کر تزئین آرائش کے نام پر لاکھوں اڑا دیئے گئے ہیں کا نوٹس لینا بھی شامل ہے سابقہ ضلع کی رپورٹس چودہ طبق روشن کردیتی ہیں جہاں پر صائمہ احد تعینات تھیں۔
محکمہ اشتمال محکمہ پبلک ہیلتھ ،لوکل گورنمنٹ ،محکمہ ایجوکیشن کی طرح کرپشن کا سمندر ہے اشتمال کا پٹواری بشیر عملی جو کہ موضع راجہ جنگ ،بنگلہ کمبواں اور کوٹلی رائے ابوبکر پر تعینات ہے سینکڑوں ایکڑ سرکاری اراضی سیاستدانوں ،افسران اور کالے کوٹ والوں کیساتھ مل کر بیچ چکا ہے موضع بنگلہ کمبواں میں بننے والیاں کالونیاں نزد پٹرول پمپ رقبہ تقریبا 367 کنال ایک بوگس انتقال کے ذریعے ان اشخاص کے نام پر برکت گٹا،بشیر منڈی والا شامل ہیں بیچا جا چکا ہے اس پٹواری کے تقریبا 06 منشی ہیں جن کو تقریبا روزانہ دوہزار روپے دیتا ہے اس پٹواری کی اولاد بھی قصور شہر و بنگلہ کمبواں میں متعدد مارکیٹس و کمرشل جگہوں کی مالک بن چکی ہے اس کے خلاف نیب میں کیس تھا جو مختلف انویسٹرز نے پیسے و سیاست کے بل بوتے پر بند کروا دیا تھا بنگلہ کمبواں میں 115 کنال 06 مرلے انتقال خارج ہونے کے باوجود لاہور کی پارٹی کو فروخت مبلغ پانچ کروڑ اسی لاکھ میں کیا اس پارٹی کے پیچھے بھی سابقہ مسلم لیگی ایم پی اے کا ہاتھ تھا قصور میں سرکاری رقبے کی خرید وفروخت میں اس وقت کے ایم این اے دو معروف قانون دانوں کے علاوہ اس وقت کے محکمہ مال کے افسران بھی شامل تھے جنہوں نے اس پٹواری کے خلاف آنیوالی رپورٹس کو پیسے وسفارش کی طاقت کے بعد دبا لیا تھا اگر اس وقت کے اے ڈی سی آر کو شامل تفتیش کیا جائے تو سارے راز کھل جائیں گے اس کے علاوہ موضع راجہ جنگ میں رقبہ تعدادی 126 کنال پندرہ مرلے فرضی کھاتہ قائم کرکے سعید نامی شخص کو مالک بنا کر لاہور کے رہائشی میاں فاروق ناصر کو فروخت کردیا اس رقبے کی فروخت کے خلاف یٰسین ولد سلیمان نامی شخص کی درخواست پر محمد طیب خاں نامی پٹواری نے رپورٹ مرتب کی جس کو دبا لیا گیا سال 2016ء میں یہ تھی ایک مختصر سی کہانی جو یہاں پر تحریر کی گئی ہے مزید تفصیلات موجود ہیں جو جلد ہی تحریری طور پر نیب ودیگر افسران کو بھیجی جائیں گی کچھ زرائع کے مطابق یہ پٹواری تقریبا پندرہ لاکھ روپے دیکر ڈیرھ ماہ کی معطلی کے بعد دوبارہ ان موضعات پر تعینات ہوا تھا چند دن پہلے رنگے ہاتھوں 80 ہزار روپے رشوت لیتے اینٹی کرپشن نے گرفتار کیا مگر پھر پیسے کی چمک اور مدعیوں کی بلیک میلنگ کے بعد دوبارہ رہا ہوگیا رہائی کے عوض بھی اچھی خاصی رقم دے چکا ہے ۔
تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال کوٹ رادھاکشن عملہ و فنڈز کی کمی کے باعث مشکلات کا شکار ہے ڈیلی ویجز ملازمین سابقہ ایم ایس کی معطلی سے پہلے عرصہ 06 ماہ سے تنخواہوں سے محروم ہیں ہیلتھ کونسل کے فنڈز مبلغ ایک کروڑ پچیس لاکھ ہضم کرلیا گیا ہے محکمہ ہیلتھ کے افسران کی کارکردگی انتہائی مایوس کن ہے جبکہ سابقہ ایم ایس کے دور میں چہتوں کو تنخواہوں سے نوازا گیا تھا اس پر ایک انکوائری تو لگائی گئی ہے مگر خدشہ ہے کہ ردو بدو کرنے کی تیاری ہے ڈپٹی کمشنر صاحبہ کو چاہیے کہ ازسرنو دوبارہ تمام فنڈز کا آڈٹ کروایا جائے تاکہ افسران کی جعلی ایمانداری کو بھانڈا بیچ چوراہے پھوٹ سکے اس کے علاوہ ضلع بھر میں محکمہ ٹریفک و ٹرانسپورٹ اتھارٹی کی کارکردگی بھی مایوس کن ہے ٹریفک اہلکار سارا دن دیہاڑی بنانے کے چکر میں ہوتے ہیں ہر طرف ناجائز بس سٹینڈز کی بھرمار ہے صفائی ستھرائی کا نظام شہر قصور و دیگر قصبہ جات میں انتہائی زبوں حالی کا شکار ہے پینے کا صاف پانی نہ ہونے کی وجہ سے عوام پیٹ کے امراض کے علاوہ ہپیاٹائٹس میں مبتلا ہو چکے ہیں عطائیت کا جن بھی بے قابو ہے اگر ڈپٹی کمشنر صاحبہ سپیشل برانچ اور آئی ۔بی والوں سے رپورٹس منگوائیں تو ساری کاغذی کاروائی کا آئینہ گدلا ہو جائے گا رجسٹری محرر حضرات کے ٹرانسفر بھی سیاسی بنیادوں پر ہورہے ہیں ضلع بھر میں قائم اراضی ریکارڈ سنٹڑز بھی کرپشن کا گڑھ بن چکے ہیں خاص کر کوٹ رادھاکشن میں اراضی ریکارڈ سنٹر کے افسران کا لیٹ آنا اور جلدی جانا معمول بن چکا ہے جبکہ سائلین کو آپسی ضد بازی کے وجہ سے زلیل کیا جاتا ہے کوٹ رادھاکشن اراضی ریکارڈ سنٹر کا انچارج اکثر چھٹیوں پر رہتا ہے لوگوں کیساتھ بدتمیزی بھی اس کا معمول ہے افسران بالا کو چاہیے کہ وہ اس پر نوٹس لیکر تمام معاملات کو درست کروائیں ۔